• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اجی، باقی باتیں بعد میں، پہلے لیاقت بلوچ، امیرالعظیم اور قیصر شریف سے کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کو سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ’’دینیات‘‘ اور ’’تنقیحات‘‘ کا انگریزی ترجمہ تو گفٹ کریں!

چونکہ بات خدمت خلق اور سیاست کے چولی دامن کے ساتھ کی کرنی ہے چنانچہ حکومتی ٹائیگرز کو بھی اللہ سلامت رکھے، ہماری عرض ہے اگر وہ محض ڈاکٹرز ہی کو اخلاقی و ’غیر سیاسی‘ سپورٹ دے دیں تو ہم انہیں ’ڈاکٹر‘ ہی سمجھیں گے۔ چلیے، ہم ٹائیگرز کو کراچی کے عبداللہ بٹ کا راز بتاتے ہیں، وہ گزشتہ پندرہ برس سے ای- ڈاکٹرز اور ٹیلی میڈیسنز پر کام کر رہے ہیں اور اب کووڈ19 کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں اس سے قبل زچہ و بچہ پر انہوں نے کمال کام کیا۔ ایک بینک نے ان کی قومی و بین الاقوامی خدمات کے پیش نظر انہیں کچھ روز قبل 5ملین ڈالر امداد بھی دی، وہ الگ بات ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ مدد کے حقدار ہیں۔ گورنر سندھ اور وفاقی معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا سے مایوس ہوکر جب وہ سندھ صوبائی حکومت کے دست و بازو بنے تو ہم نے کھوج لگائی مگر ساری جڑیں کھودنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ عبداللہ بٹ کا پیپلز پارٹی یا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی رشتہ نہیں تاہم وہ اپنی طرز کے ڈیجیٹل ایدھی ہیں۔ سندھ حکومت کے علاوہ جماعت اسلامی اور ایدھی فاؤنڈیشن کو بھی ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ان سے ملاقات کے بعد میں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وی سی ڈاکٹر جاوید اکرم سے بھی بات کی تھی کہ اس عالمی کورونا وبا میں ڈیجیٹل تکنیک سے حامل ای- ڈاکٹرز اور ٹیلی میڈیسن کی بہت اہمیت ہے تو ان دونوں کا جواب تھا کہ ہمارا اس ضمن میں مربوط نظام چل رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور الخدمت سے عبداللہ بٹ کی تنظیم تک کی ملکی سطح پر اس میں ہم آہنگی ہو۔ ہم صدرِ مملکت سے درخواست کریں گے ایک میڈیکل شخصیت ہونے کے ناتے وہ اس ہنگامی موقع پر ٹیلی میڈیسن اور ای- ڈاکٹرز کی اسپیشل سربراہی کیلئے کچھ وقت نکالیں۔ صدرِ پاکستان نے جامعات کے دوروں پر خصوصی دلچسپی بھی لی تھی۔ وبائی مرض عروج پر ہے، ہم ڈاکٹر عارف علوی سے توقع کرتے ہیں وہی اپوزیشن اور حکومت کوکوروناپر ایک صفحہ پر لانے کی کوشش فرمائیں گے۔ یہ بہت ضروری ہے، عیب، نیب اور 18ویں ترمیم میں ترمیم کے محاذوں پر بعد میں بھی لڑا جا سکتا ہے۔

خول سے ہمیں یاد آیا کہ جب تک ہم ذاتیات اور مخصوص نفسیات کے خول سے نکل کر تنقیحات کے غلاف میں نہ آئیں اور اپنے اندر تہذیبوں کے تصادم، سوشلزم و کیمونزم اور اسلامک فلاسفی کی جنگ بیدار کرکے کسی نتیجہ تک نہ پہنچ سکیں تب تک ہم محقق بن سکتے ہیں نہ لیڈر، کیمونزم اور اسلامی معاشیات کا تقابلی جائزہ اگر ذہن کے گوشوں پر گاہے گاہے دستک نہ دے نیز ادب و ثقافت کی رعنائی و آشنائی کا دماغ کی پرتوں میں ہونا ضروری ہے ورنہ کہاں کی اور کاہے کی لیڈری، بے شک کسی کا خانقاہی سے تعلق ہو یا شہنشاہی سے، تمدن، انسانی حقوق، فلسفہ، صبر اور محنت رگ و پے میں نہیں تو لیڈری نہیں۔ لیڈری تو خدمت کا دوسرا نام ہے، کسی ملوکیت یا آٹو کریسی کا نہیں۔ رہبری اس وقت پروان چڑھتی ہے جب ایک خاص عمر اور کیفیت کو سہولیاتی اشیا سے بھی چبھن کا احساس ہونے لگے!

سیاست کیلئے اس وقت تک جمہوری معراج ممکن نہیں جب تک یہ خانقاہی ایکوسسٹم، مخصوص ڈی این اے، شکنجۂ مقتدر اور ’’ملی مافیا‘‘ سے آزاد نہیں ہوتی، جانے مجھے کیوں یہ ہلکا پھلکا ’’شک‘‘ ہے کہ مولانا مودودی کی اخلاقیات و تنقیحات اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسیات و تخیلات کی یہ سعی تھی بھی کہ صحتمند سیاست پروان چڑھے! لیکن بدقسمتی کہیں یا حالات و واقعات میں آگہی کا فقدان کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی سیاست کو نظر لگ گئی۔ سیاست کو ہم ادارہ جاتی نہیں کر سکے بلکہ ادارہ کُش کر دیا۔ سوچا تھا تبدیلی ایک تغیر مہ بھی ہوئی مگر کسی ارتقا کا پیش خیمہ تو ہو گی مگر کیا کریں، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، ہم نے بارہا یہ سوچا مگر واقعی ’بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘ گویا عہد حاضر میں ہم نے محبت اور سیاست کو ایسا گڈمڈ کر دیا کہ جینے کا بہانا تو رہے، پس

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

ہلکا پھلکا شک یہ بھی کہ محسوس یوں ہوتا ہے جیسے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی مقتدر سے دوری میں بھی ایک صفحہ پر ہوں۔ لیکن ایک وضاحت کر دیں، بلاول کیلئے دو قد میں چھوٹی مگر قامت اور اقامت میں بڑی جن کتابوں کا تذکرہ کیا ہے انہیں پڑھنے سے بلاول بھٹو زرداری جماعتیے نہیں، اور بھی بڑے جیالے ہو جائیں گے۔ فلسفہ، تاریخ و ادب اور سائنس کی کئی بڑی کتب یقیناً بلاول کے مطالعہ سے گزری ہوں گی، محقق ہونا ہی جب لیڈر ہے تو یہ بھی سہی۔ یہ کتابیں سراج الحق محترم خود عنایت کیوں نہیں کرتے؟ رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ اور سیاست بھی! ویسے ’شک‘ ہمیں یہ بھی ہے کہ کسی زمانے میں جیالوں اور جماعتیوں کی ’’کھچ‘‘ بڑی اٹھتی تھی۔ کھچ اٹھنا پنجابی محاورہ ہے جس سے مترادف چال میں چستی و چالاکی ہونا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ’الخدمت‘ والی جو سیاسی، سماجی و اخلاقی بات ہم نے جماعت اسلامی میں دیکھی وہ کہیں اور نہ دیکھی۔ پنجاب والوں کو مشورہ دیں گے بدقسمتی سے آپ اکثریت سے اقلیت میں بدل گئے ہیں اور سنا ہے اقلیت اکثر منظم ہوتی ہے، پس قمر زمان کائرہ اور مخدوم احمد محمود اس کووڈ-19 میں کوئی ’الخدمت‘ ہی متشکل کر لیتے۔ یقین مانیے کووڈ-19 کے عذاب میں خدمت خلق کیلئے ٹائیگرز اور جیالے بھی ایک صفحہ پر ہوتے تو کیسے کیسے، کس کس کے اور کیا کیا کفارے نہ ادا ہو جاتے۔

تازہ ترین