• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد عمران
بنو مخزوم جوفجر اسلام سے قبل عربوں کا ایک نہایت با اثر قبیلہ تھا ، اس سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے چوری کا ارتکاب کیا ،اس پر چوری کا الزام ثابت بھی ہوا جس پر اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی گئی ۔اس کے قبیلے نے نبی کریم ﷺ سے رعایت حاصل کر نے کی کوشش کی ۔جس سے کرہ ارض پر دنیا کے سب سے بڑے جج ﷺغضبناک ہو ئے اور یہ تاریخی الفاظ ادا کئے جو تمام نسلوں اور معاشروں ،ججوں اور عدالتوںکے لئے رہنما اصول ہے ۔نبی کریم ﷺ نے کہا تھا َجن لوگوں نے اثر و رسوخ کی بنیاد پر مجرم کو رہا کیا ،کمزور اور غریب کو سزا دی ،یہی وجہ ہے کہ ان کا دنیا میں وجود نہ رہا اور وہ فنا ہو گئیں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سناتا ۔َسپریم کورٹ آف پاکستا ن دنوں اپنے ہی ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک انتہائی اہم کیس کی سماعت کر رہی ہے ،قابل احترام جج نے عدالت عظمیٰ میں اس ریفرنس کو چیلنج کیا ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام پر لندن میں جائیداد بنائی لیکن اسے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا ۔سپریم کورٹ میں اس پر شدت سے بحث جاری ہے ۔دس رکنی بنچ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر رہی ہے ۔اب جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ معزز جج کے خلاف اثاثے ظاہر نہ کر نے کے الزام میں کارروائی ہو ۔عدالت نے ریفرنس دائر اور پشت پناہی کر نے والوں کی نیت اور مقدمے کی قانونی حیثیت پر سوالا ت اٹھائے ہیں ۔جہاں تک صدر پاکستان کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کر نے کا تعلق ہے ،یہ یقیناَ آئینی دائرے میں ہے ،تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وکلائ برادری کی جانب سے رائی کا پہاڑ کیوں بنایا گیا ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ جسٹس عیسیٰ بڑی اچھی شہرت کے حامل ہیں ،پھر بھی وہ ایک انسان ہی ہیں جن سے خطا ہو سکتی ہے ۔ جتنی بنیاد مضبوط ہو ، اتنا ہی کڑا احتساب بھی ہو تا ہے ۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سیاست دانوں میں کسی کا چاہے کتنا ہی اونچا رتبہ ہو ،اس کی عدالتوں نے سخت جانچ پڑتال کی ہے ۔اس کی حالیہ مثال نواز شریف کے خلاف مقدمہ ہے جہاں ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے انہیں وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل قرار دیا ،بلکہ وہ تا حیات کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ وہ ایک منتخب عوامی رہنما کی حیثیت سے وہ اپنے خاندان کے ارکان کی بیرون ممالک جائیداد کا منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے ۔جس کا انکشاف پاناما پیپرز میں کیا گیا تھا ۔اس سے قبل ہم نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا کہ برسر اقتدار وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا ۔آرمی جنرلوں کے لئے حالیہ برسوں سمیت چیزیں تبدیل ہو ئیں -اس کی مسب سے بہترین مثال جنرل (ر) راحیل شریف نے قائم کی جب انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے بیرکوں میں اپنے آپریشن کلین اپ کے تحت کرپشن کے الزام میں دو لیفٹننٹ جنرلز سمیت اعلیٰ فوجی افسران کو برطرف کیا ۔قانون کی نگاہوں میں کوئی مقدس گائے نہیں ہو تی ،چاہے وہ سیاست داں ہوں ،ججز ، جنرلز یا کوئی اور ہم سب اوس بات کے قائل ہیں کہ جو اقتدار میں ہوں یا جن کی سماجی ذمہ داریاں ہیں ،انہیں اپنے افعال پر جوابدہ ہونا پڑے گا ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ خود کا ماورا رکھ کر دنیا بھر کا احتساب مانگتے ہیں ۔انصاف کے لئے ضروری ہے کہ انصاف کسی کو بخشے بغیر اوپر سے شروع کیا جائے اور اگر غلط کاریوں کے مرتکب پائے گئے تو انہیں کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔کسی کو ہدف تنقید بنانے سے قبل یہ یاد رکھیں کہ ہر کوئی ایک وقت پارسا نہیں ہو تا ،انہیں بھی بڑے چھان پھٹک سے گزرنا پڑتا ہے ۔معزز جج اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک ان پر الزام ثابت نہیں ہوجا تا ،تاہم مکمل اور منصفانہ و شفاف بلا تفریق احتسابی عمل وقت کی ضرورت ہے اگر ہم اپنے ملک کو آگے کی جانب لے جا نا چاہتے ہیں ۔معزز جج کو خود اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کا خیر مقدم کر نا چاہئے اور خود کو بے گناہ ثابت کر نے کے لئے تمام حقائق سامنے لائیں بجائے اس کے کہ کیس کو قانونی موشگافیوں میں الجھایا جائے شخصیات کے لئے اداروں کو قربان نہیں کیا جا نا چاہئے۔انصاف قائم اور فراہم کر نے کے لئے کوئی امتیاز نہیں رکھنا چاہئے ۔ اس ھقیقت کی جاانب بڑھنے کا وقت آگیا ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ۔اس کیس میں نہ صرف انصاف ہو نا بلکہ دکھائی بھی دینا چاہئے۔
تازہ ترین