ٹڈی دل آندھی کی طرح آتا ہے اور ایک لشکر کئی کلومیٹر پر پھیلے کھیتوں کو پلک جھپکتے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے بعد کسان کچھ نہیں کر سکتا، ٹڈی دل اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی فصل کا صفایا کر دیتا ہے ، یہ صرف منٹوں کی بات ہے۔یہ الفاظ ہیں پنجاب کے شہر لودھراں کے رہائشی ایک گاؤں کے مقامی کسان کے جس کی آنکھوں دیکھی کو برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ کا حصہ بنایاہے،اسلام خان نامی کسان کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے چند منٹوں پر مشتمل حملے نے اس کے ساٹھ ایکڑ کھیت پر کاشت کپاس کایک دم خاتمہ کردیا۔اسی طرح سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی تصاویر وائرل ہیں جن میں کسانوں کوہاتھوں میں تھال اور پلاسٹک کی بوتلیں اٹھائے ٹڈی دل کے خلاف بے بسی کی حالت میں دکھایا گیا ہے ایک رپورٹ کے مطابق ٹڈی دل کے پاکستان میں حالیہ حملے کو گزشتہ تین دہائیوں میں ایک بڑا حملہ قرار دیا جارہا ہے، ملک کے ساٹھ سے زائد اضلاع ٹڈی دل سے شدید متاثر ہیں، صرف جنوبی پنجاب میں ٹڈی دل ڈھائی ہزار ایکڑ پرمحیط کپاس کی فصل کو تباہ کرچکا ہے، ٹڈی دل کے بڑے جھنڈ پاکستان کی فصلوں کا صفایا کرنے کے بعد بھارت میں بھی داخل ہوچکے ہیں، ایران کی صورتحال بھی پاکستان اور بھارت سے مختلف نہیں جہاں ٹڈی دل نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے، ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ آئندہ دنوں میںٹڈی دل حملوں میں بتدریج اضافہ متوقع ہے۔ہمارے ملک کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے لیکن یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ زراعت کا شعبہ نہایت زبوں حالی کا شکار ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ابھی چند ماہ قبل ٹماٹر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، اس کی بنیادی وجہ ٹڈی دل حملے کے باعث فصلوں کی تباہی تھی،اب بھی اس عفریت کابروقت مقابلہ نہ کیا گیا توآئندہ مہینوں میں خدا نخواستہ خریف کی فصلیں بشمول گنا، چاول، کپاس اور مکئی کی تباہی ملک بھر میں خوراک کے سنگین بحران کا باعث بنے گی۔ پاکستان میں ٹڈی دل افریقہ اورعرب کے صحراؤں سے براستہ ایران داخل ہوا ہے، اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک کے مطابق ٹڈی دل ایک گھنٹے میں160کلو میٹر کافاصلہ طے کرتے ہوئے راستے میں آنے والے ہر کھیت کو کھا سکتا ہے، یہ ٹڈیاں فصلوں پر حملہ کرنے کے بعد وہیں انڈے بھی دے جاتی ہیں، جس کی بناء پر اگلی فصل کی تیار ی سے قبل ہی مقامی سطح پر ٹڈی دل کی افزائش ہوجاتی ہے،ٹڈیوں کی افزائش کا موسم جنوری تا جون سمجھا جاتا ہے، تاہم میدانی علاقوں میں افزائش برسات کے موسم میں ہوتی ہے اور وہ مون سون کے موسم میں اپنی تعدادمیں مزید اضافہ کرلیتی ہیں۔ اس بات کا کریڈٹ عالمی ادارہ خوراک کو دینا چاہئے کہ وہ باقاعدگی سے ٹڈی دل کے حملوں سے بچنےکیلئے وارننگ جاری کرتا رہتا ہے ، اس بار بھی عالمی ادارے کی طرف سے پاکستان کو رپورٹ بھجوائی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے ہم نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ جب تک پانی سر پر سے نہیں گزرتا، ہم ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔رواں برس ملک میں چینی کا بحران شروع ہونے سے چار ماہ قبل میں نے نہ صرف حکومتی اجلاسوں میں بلکہ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں آگاہ کردیا تھا ، میں سمجھتا ہوں کہ اگر بروقت ایکشن لے لیا جاتا تو آج یہ تباہی نہ ہوتی ۔ ٹڈی دل کے حملوںکے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہونے کے باعث کسی ایک ملک یا ادارے کے بس کی بات نہیں، ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے ٹڈی دل کے خطرے کا مشترکہ مقابلہ کرنے کیلئے ایک پروپوزل حکومت پاکستان اور ایران کو بھیجا گیا ہے جس کا ایران کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن پاکستان نے فی الحال کوئی جواب نہیں دیا ہے، پروپوزل میں خطے کے عوام کے وسیع تر مفاد میں ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے پاکستان، ایران اور بھارت کو باہمی طور پر نبزد آزما ہونے کی تجویز پیش کی گئی ہے، بھارت کی جانب سے ایران کو ٹڈیوں کے خاتمے کیلئے بیس ہزار لیٹر میلاتھیون نامی کیڑے مار دوافراہم کرنے کی بھی اطلاعات ہیں، اگرپاکستان کی جانب سے اس پروپوزل کا مثبت جواب دیا جاتا ہے تو بھارت یہی کیڑے مار دوا پاکستان کو بھی دینے کیلئے تیار ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین ٹڈی دل حملے پر ایک باقاعدہ میکانزم ہے جس کے اجلاس ہر سال جون سے نومبر کے مہینوں میں بھارتی راجستھان کے سرحدی علاقے موناباؤ اورپاکستان میں کھوکھرا پار میں منعقدہوتے ہیں، ٹڈی دل کے حوالے سے دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کا وائرلیس پر بھی رابطہ رہتا ہے، تاہم اگر علاقائی سطح پر پاکستان، ایران اور بھارت کے مابین ٹڈیوں کے خلاف کوئی موثراتحاد تشکیل پاتا ہے تو میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔ مستقبل قریب میں اس ٹڈی دل مخالف اتحاد میں مڈل ایسٹ اور افریقہ کے ان ممالک کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جہاں سے یہ ٹڈی دل فصلوں کو تہس نہس کرنے کیلئے روانہ ہوتے ہیں۔ اگر بھارت اور ایران نے اپنے علاقوں میں ٹڈی دل پر قابو پالیا اور پاکستان پیچھے رہ گیا تو ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ مقامی سطح پر افزائش پانے والی ٹڈیاں ثابت ہونگی جنہوں نے بلوچستان اور تھرپارکر کے صحرائی علاقوں کو اپنا نیامسکن بنالیا ہے، ٹڈی دل کے بڑھتے ہوئے حملے ملک میں خوراک کے بحران اور مہنگائی کی نئی لہر کا باعث بن سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علاقائی سیاست سے بالاتر ہوکر اپنے کسانوں اور عوام کے وسیع تر مفاد میں بہترین فیصلہ کرنے میں مزید وقت ضائع نہ کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)