• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر میں کرکٹ کے حوالے سے میچ فکسنگ کے قصے اکثر عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہی صورتحال اس وقت پاکستان کے انتخابی ماحول اور مستقبل کے سیاسی نقشہ میں بھی نظر آ رہی ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں چارٹر آف ڈیمو کریسی کے تحت جو معاملات مسز بے نظیر بھٹو کی زندگی میں طے ہوئے تھے اور انہیں امریکی آشیر باد بھی حاصل تھی اس کے دوسرے مرحلہ میں اب شریف فیملی کو اقتدار ملنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ اس حقیقت یا ممکنہ حقیقت کو مانتے ہوئے عمران خان اس نکتہ پر زور دے رہے ہیں کہ دونوں بڑی پارٹیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اس بنیاد پر دونوں پارٹیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام اور خاص کر نوجوان خواتین اور مرد حضرات انہیں زیادہ ووٹ دیں گے۔ امریکی حکام بظاہر اپنے آپ کو الیکشن 2013ء سے الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں ،چند روز قبل امریکی سفیر رچرڈ جی اولسن لاہور میں تھے مگر وہ پاکستان کے سیاسی حالات پر خاموش رہے البتہ امریکہ بزنس فورم کے سالانہ عشائیہ میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے اور دونوں ممالک میں اعتماد سازی کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکی کمپنیاں پاکستان میں کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور مستقبل میں توانائی، زراعت صنعت سمیت کئی شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے پر کام کر رہی ہے۔ ان کے اس بیان سے ایسے لگتا ہے کہ پاکستان میں اگلی حکومت بزنس مین فیملی کی آ سکتی ہے۔ مگر اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ 11مئی کو کیا ہو گا یا اس سے پہلے کیا کچھ ہو گا۔ جس میں ہر بڑی سیاسی پارٹی کے کئی رہنما کرکٹ کی زبان میں زخمی ہو کر پویلین واپس لوٹ رہے ہیں اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں کو آگے آنے کا موقع دیا جا رہا ہے جس میں فائدہ تو بڑی سیاسی پارٹیوں اور عوام دونوں کا ہو گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس سے روایتی سیاست کے خاتمہ میں مدد مل سکے مگر یہ روایت فوری طور پر ختم ہونے والی نہیں۔ اس وقت تو مختلف سفارتی اور قومی حلقوں میں یہ تاثر زیر بحث ہے کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کے دوسرے مرحلہ میں اب اسلام آباد کی قیادت بدلنے والی ہے مگر وہکلیئرنس امریکی حکام کی تسلی اور پھر بعض پاکستانی اداروں کے ساتھ اعتماد کی فضا ہموار کرنے والوں کے لئے ہو گی جو اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان میں امریکی مفادات کی حفاظت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جائے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ سابق صدر پرویز مشرف کے امریکی تعاون سے بھی آگے بڑھ جائے۔ امریکن بزنس فورم (ABF) میں کئی معروف پاکستانی صنعتکار اور تاجر امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجروں سے کہہ رہے تھے کہ آپ پاکستان کو امریکہ کی 53ویں ریاست کیوں نہیں بنوا دیتے۔ اس پر ایک جملہ جو کئی مہمانوں نے سنا وہ یہ تھا کہ اب بھی یہی صورتحال ہے صرف اعلانیہ طور پر ایسا نہیں ہے۔ اس حوالے سے بال پاکستان کی کورٹ میں ہے کہ وہ امریکہ کو سب کچھ دینے کے بدلے میں کیا کچھ لیتا ہے۔ اس لئے بزنس مائنڈڈ سیاسی فیملی کو آگے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر زمینی حقائق تو یہی کہتے ہیں کہ امریکی خواہشات کے تحت آنے والی حکومت امریکی مفادات کی کوئی پاسداری نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکی تجاویز سے اتفاق کرے گی اور نہ ہی طالبان کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کی سلامتی کے معاملہ پر کوئی دباؤ قبول کرے گی۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو پھر انتخابی سرگرمیوں کی پتنگ بسنت کی پتنگ کی طرح کٹ سکتی ہے اور یہاں ایک نئے سیٹ اپ کی طرف معاملات جا سکتے ہیں جس کے لئے لاتعداد ماہرین نت نئی تجاویز کے ساتھ دو تین سال کے معاشی پلان کا خاکہ لئے گھوم رہے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ مسائل دو تین سال نہیں اس سے زیادہ عرصہ میں حل ہونے والے ہیں۔ دو تین سال تو قوم کو تسلی اور تشفی دینے میں گزر جائیں گے البتہ انرجی کے بحران اور گورننس کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے رول آف لاء کو یقینی بنا کر احتساب کے عمل کو پہلی ترجیح دینا ہو گی لیکن اس سے انتخابی عمل میں رکاوٹ نہیں آنی چاہئے بلکہ یہ عمل تیز ہونا چاہئے حالانکہ میرے سمیت لاتعداد افراد کا خدشہ ہے کہ الیکشن کے انعقاد میں تاخیر ہو سکتی ہے، وہ کیسے ! اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں شاید مل جائے۔
تازہ ترین