کورونا وائرس نے دنیا کو اس مرحلے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ کب کیا ہونا ہے،کس سمت جانا ہے، منزل کون سی ہے اور قیام کیا کرنا ہے۔ ہر شخص پریشانیوں اور مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ دیار غیر میں رہنے والے زیادہ پریشان ہیں کہ گھر والوں، عزیزوں، رشتہ داروں سے دور عجیب کشمکش میں وقت گزار رہے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیز ہر مشکل اور آڑے وقت میں کام آتے ہیں لیکن اب ان حالات میں ان کی کوئی سننے والا نہیں۔ اس سلسلہ میں ہم نے کمیونٹی کی نمائندہ شخصیات سے مسائل اور مشکلات پر بات کی۔ چوہدری خالد حسین پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کے صدر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہاں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو جلد از جلد پاکستان بھجوانے کے انتظامات کئے جائیں۔
ہوسکے تو نیول شپ بھیج کر مناسب کرائے پر انہیں لے جایاجائے۔ قونصلیٹ تو اپنی جانب سے پوری کوشش کررہی ہے لیکن پروازیں محدود اور پاکستان جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں قرنطینہ سینٹر بھی بڑی تعداد میں موجود نہیں۔ قونصلیٹ کو رجسٹریشن کرتے وقت سیریل نمبر لگانا چاہئے تھا۔ درخواستیں تو لے لی ہیں لیکن کسی کو علم نہیں کہ کس کا نمبر کب آئے گا۔
روزانہ ہزاروں لوگ پاکستان قونصلیٹ کے باہر جمع ہوجاتے ہیں۔ اس سے حکومت پاکستان، قونصلیٹ اور پاکستانیوں کی بدنامی ہورہی ہے۔ میری تجویز ہے کہ ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ اپنے علاقے کے اسکول، مدرسہ اورشادی ہالوں میں قرنطینہ سینٹر قائم کریں۔ یو اے ای سے کوئٹہ کے لیے خصوصی پرواز چلائی جائے تاکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اپنے گھر جاسکیں۔ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کی کارکردگی صفر ہے۔ اس ادارہ کو متحرک کیاجائے کہ وہ اوورسیز کے مسائل حل کریں۔
یاسمین کنول پی ٹی آئی متحدہ عرب امارات کی عہدے دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے حکومت پاکستان نے بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے لیے خصوصی پروازیں شروع کی ہیں کچھ عجیب و غریب ڈرامے شروع ہوچکے ہیں۔ جہاز میں بیٹھ کر ویڈیو بنانا، ڈائیلاگ مارنا، سہولیات کے فقدان کا رونا دھونا، سوشل میڈیا پرویڈیو اپ لوڈ کرکے سیلبیرٹی بننے کی کوشش کرنا اور حکومت کی بدانتظامی کو اجاگر کرنا عام ہوگیا ہے۔ پاکستان پہنچنے پر حکومت قرنطینہ سینٹراور ہوٹل کا آپشن دیتی ہے۔ قرنطینہ سینٹر میں مفت ٹہرنے اور کھانے پینے کی سہولت حکومت کی جانب سے ہے۔ لوگ ہوٹل کا انتخاب کرکے جب بل کی باری آتی ہے تو ملبہ حکومت پر ڈال دیتے ہیں کہ زیادتی ہورہی ہے۔
حکومت پاکستان اور پی ٹی آئی نے مل کر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کا ایمرجنسی آپریشن شروع کیا ہے۔ نارمل پروازیں بند ہیں۔ ایک طرف سے جہاز خالی جائیں گے تو ٹکٹ کی شرح زیادہ ہوگی۔ امیر ممالک تو اپنے شہریوں کو مفت لاسکتے ہیں لیکن پاکستان یہ افورڈ نہیں کرسکتا۔ پی آئی اے آپریشن کا خرچہ پورا کرنے کے لیے کرایہ میں اضافہ کیا ہے جسے لوگ بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری پی ایس پی کے عہدے دار ہیں کہتے ہیں کہ کورونا پاکستان میں آیا ہی نہیں۔ وہاں حکومت اور عوام کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ وزیراعظم وائرس کے متعلق متضاد بیانات دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں نزلہ زکام کی طرح اور کبھی مہلک مرض قرار دیتے ہیں۔ پھر قوم کو رٹا لگوادیں کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ پیسہ چاہے اوورسیز پاکستانیز سے 55 کروڑ جمع کرلیے۔ حکومت کے سامنے کورونا سے نمٹنے کے لیے مسائل نہیں بلکہ وسائل کے دروازے کھلے ہیں۔
حکومت صرف فنڈ جمع کرنے میں لگی ہے۔ کورونا وائرس کے سبب پاکستانیوں کی مشکلات کو سفارت خانے، قونصلیٹ اپنے محدود وسائل میں رہ کر حل کر رہے ہیں لیکن جتنا کام انفرادی اور اجتماعی طور پر اووسیز پاکستانیز ایک دوسرے کی مدد سے کررہے ہیں۔ حکومتی سطح اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں مدنظر رکھتے ہوئے پی آئی اے انتہائی ضرورت مند پاکستانیوں کو مفت سفر کی سہولت دینے سے پی آئی اے کسی مالی بحران کا شکار نہیں ہوگی۔
راجہ ابوبکر آفندی بانی و صدر ہزارے وال اوورسیز پاکستان فورم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیز زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ وائرس نے ان کے روزگار ختم کردیئے۔ حکومت پاکستان نے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے جو ڈھیلے ڈھالے اقدامات کئے ہیں ان کا نتیجہ انتہائی خوف ناک نکلنے والا ہے۔ پاکستان جانے کے خواہشمند شدید کرب و اذیت سے گزر رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کی جانب سے خاموشی اور کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی گئی جو پاکستانی واپس جارہے ہیں ان کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ایک عالمی سطح کا قرنطینہ تک نہیں بنایا گیا۔
60 ہزار پاکستانیوں نے وطن جانے کے لیے رجسٹریشن کروالی ان کو نہ ہی رجسٹریشن نمبر اور نہ ہی واضح ہدایات جاری کی گئیں۔ جن لوگوں نے رجسٹریشن کروالی ان کو مخصوص نمبر الاٹ کیا جائے۔ کیا بیرون ملک پاکستانی صرف چندے اور رقوم بھیجنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ حکومت پاکستان جنگی بنیادوں پر ملک کے ہوائی اڈوں کے قریب قرنطینہ سینٹر بنائے۔ خدا کے لیے ہم وطنوں پر ترس کھائیں۔
سوید بلوچ ممتاز سماجی کارکن ہیں بے لوث پاکستانیوں کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستان سے زیادہ لیبر کلاس آئی ہوئی ہے۔ ان کا روزگار چلا گیا ہے انہیں پاکستان بھیجنے کے عملی اقدامات کئے جائیں۔ دیار غیر میں ہم نے اپنے ملک کی ساکھ کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ انشاء اللہ حالات سدھریں گے ،خصوصی پروازوں میں اضافہ کیاجائے۔ طریقہ کار آسان، کرایہ کم اور یکساں کیا جائے جن کے پاس جاب اور رقوم نہیں ہیں انہیں فری ٹکٹ دیا جائے۔ قونصلیٹ جنرل آف پاکستان رابطے کے ذرائع خصوصاً ہیلپ لائن کی سہولت کو یقینی بنائیں۔ کال کرنے پر کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوتا۔
پریس قونصلر کو متحرک کیا جائے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر آگاہی دیں۔ قونصلیٹ کے سامنے رش نہ کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو بحری جہازوں کے راستے انخلا کا بندوست کیا جائے۔ میتوں کو پاکستان بھیجنے کے عمل کو حکومت پاکستان کرے۔ سفر کے دوران سماجی فاصلے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قرنطینہ سینٹر قائم کئے جائیں۔ کسی بھی اصلاح، طلب، خامی یا کمی نشان دہی، ادارے کی کامیابی اور سروخروئی کا سبب بنتی ہے لیکن ان مسائل کو نظرانداز کرنا مسائل میں اضافے اور مزید پیچیدگی کا سبب بنتے ہیں۔ میں ہر وقت مدد اور تعاون کے لیے تیار ہوں۔
ملک خادم شاہین پاکستان پیپلزپارٹی یو اے ای کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یو اے ای میں پاکستانی بہت پریشان ہیں۔ ان کی آواز اور درد کو کوئی سننے والا نہیں ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی وطن واپسی میں حکومت غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ہزاروں لوگ رمضان کے بابرکت مہینہ میں سفارت خانہ کے باہر واپسی کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ کوئی انہیں جواب دینے والا نہیں۔ ٹکٹوں کی قیمتوں میں کمی ہونا چاہئے۔ مرکزی حکومت، سندھ حکومت پر تنقید کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرے، غریبوں کو ریلیف دے۔