• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

11جون کے اخبارات کی ایک اہم خبر ہے ’’پیرس کلب نے پاکستان کے ساتھ افریقی ممالک چاڈ، ایتھوپیا اور جمہوریہ کانگو کا قرضہ بھی موخر کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سب سے پہلے غریب ممالک کیلئے قرض موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا‘‘۔ اب ہمارے ہاں کریڈٹ لینے کی جو بے ہنگم روایت ہے اُس کے تحت تو ’ اہلِ جنوں‘ لن ترانیاں کر سکتے ہیں کہ دیکھیں جی، پیرس کلب نے بھی وزیراعظم عمران خان کی بات کو اہمیت دیتے ہوئے سب سے پہلے جن 4چارممالک کو ریلیف فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اُس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ہمارے نقطہ نگاہ کے مطابق اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ خیرات و امداد دینے والے ممالک پاکستان کو کس قدر ’مستحق‘ گردانتے ہیں۔ مصور پاکستان نے جب یہ کہا تھا؎

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

تو اس سے قطعی یہ مراد نہ تھی کہ ہم ایسے ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں جو ہم سے ہمہ جہت و ہمہ گیر مسائل و مصائب سے دوچار ہونے کے باوصف فنا و بقا کی صورتحال سے دوچار ہوں۔ پاکستان تمام تر وسائل سے نہ صرف مالا مال ہے بلکہ مذکورہ افریقی ممالک کی طرح آزمائشوں سے بھی دوچار نہیں ہوا۔ پاکستان کے حصے میں جو مصائب آئے وہ ان قوتوں کی دین ہیں جو اپنے سوا کسی کو پاکستان کا خیر خواہ سمجھنے کے روادار ہی نہیں، حضرت اقبال چاہتے یہ تھے کہ ایک ایسی فلاحی مملکت ہو جہاں امیر و غریب اور حکمران و رعایا ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں، یوں تو مذکورہ شعر کا پس منظر کچھ اور ہے لیکن حضرت کا تصور بہرصورت یہی تھا۔ آج کے اشرافیہ کے اس پاکستان کو کیا ہم مصورِ پاکستان کے خوابوں کی تعبیر کہہ سکتے ہیں؟ بلائیں، آزمائشیں، آفتیں سمیت مختلف بیماریاں و تکالیف کا آفرینش کائنات سے انسانوں سے تعلق ہے، لیکن ہر دور میں اس تعلق کے ربط و ضبط مختلف رہے۔ عہد موجود میں سائنس و ٹیکنالوجی کا کمال یہ ہے کہ تمام حرکیات کی شدت کو کم سے کم کرنے کیلئے ہمہ وقت فعال رہتا ہے۔ کورونا کو ہم وبا، بلا، بیماری یا جو بھی نام دیں، لیکن یہ دنیا کیلئے ایک نئی آزمائش ہے جس میں مبتلا وہ ممالک جہاں ایک خودکار نظام موجود ہے اور جو جدیدیت کو بروئے کار لانے کا ہنر جانتے تھے نہ صرف اس وبا سے نکل رہے ہیں بلکہ وبا کے دوران کمال پر کمال یہ رہا کہ یہ ریاستیں اپنے شہریوں کو احساسِ تحفظ دینے میں کامیاب رہیں۔ اس دوران دنیا کے کسی ملک میں اشیائے ضرورت کی سپلائی لائن بند نہیں ہوئی۔ دوسری طرف پاکستان میں پیٹرولیم بحران تو آج کا واقعہ ہے، لیکن آٹا، چینی وغیرہ کی ترسیل کا بند ہونا اور پھر مہنگے داموں مارکیٹ میں لانے سے ظاہر ہوتا ہے اس ملک پر مافیاز کا راج ہے، تو ایسی صورت میں ریاست کا نظام گل سڑ جاتا ہے۔ اب جس ملک میں بقول وفاقی وزیر برائے ہوا بازی، کئی پائلٹس جعلی لائسنس ہولڈرز ہوں، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں اختیار مند کس طرح ذاتی منفعت کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلنے میں مشغول ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان دنیا بھر میں تپ دق کی شرح میں سرفہرست جبکہ ہیپاٹائٹس سمیت متعدد بیماریوں میں دوسرے نمبر پر، پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا لیکن پاکستان اور افغانستان میں یہ بیماری آج بھی موجود ہے۔ اب افغانستان تو گزشتہ 40سال سے جنگ زدہ ہے، کیا پولیو کے معاملے میں پاکستان اور افغانستان کا یکساں ہونا کوئی جواز رکھتا ہے؟ پاکستان کی 43فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، 9کروڑ افراد ایک کمرے پر مشتمل گھر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب ایسے غریب ملک میں اگر 100دوائوں کی قیمت میں ہر روز جی ہاں! ہر روز اضافہ ہوتا ہو۔ جان بچانے والی ادویہ پہلے مارکیٹ سے غائب بعد ازاں مجبوروں کو دگنی تگنی قیمت پر فروخت ہوتی ہوں تو کیسے یقین کیا جائے کہ 7عشروں سے ہنوز ملک پر قابض حکمران طبقات دل بھی رکھتے ہیں! بلاشبہ فی زمانہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں، لیکن پاکستان میں اس جمہوریت کو ایک حکمت عملی کے تحت غریبوں کیلئے بے فیض بنا دیا گیا ہے۔ اکثر لکھا اور کہا جاتا ہے کہ ایک سازش کے تحت جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا، ایسا سو فیصد درست ہے لیکن سوال یہ ہےکہ ایسا کہنے والے سیاستدان، مذہبی سیاسی رہنمائوں اور صحافیوں کی اکثریت کیا اس سازش میں شریک نہیں؟ اگر نہیں تو کیا پھر انکی اہلیت پر سوال نہیں اُٹھتا کہ اگر پڑوسی بھارت میں ایک دن کیلئے بھی مارشل یا مارشل نما حکومت نہیں آئی تو پاکستان کیوں اس کی تجربہ گاہ بنتا رہا۔ کہنا یہ ہے کہ مذکورہ تین افریقی ممالک تو غربت کی اس صف سے نکل ہی جائیں گے لیکن اگر پاکستان کے امورِ مملکت اسی طرح مافیاز چلاتے رہے تو خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے کہ پاکستان اس فہرست میں سرفہرست نظر آئے۔

تازہ ترین