• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات خواہ کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں ہمارے ہاں بجٹ کے موقع پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا اور ہر سال عوام دوست بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد شاید ہی کوئی ایسی حکومت آئی ہو جس نے عوام دشمن بجٹ پیش کرنے کی ہمت کی ہو۔

نئے پاکستان کا دوسرا بجٹ بھی شاندار اقتصادی پالیسیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ہم نے تو بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ ہمیشہ چادر دیکھ کر پائوں پھیلائو۔ بجٹ بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگا کر سال بھر کی منصوبہ بندی کی جائے۔

اب جبکہ ہماری سالانہ قومی آمدنی 3900ارب روپے ہے، ہمارے اخراجات کا تخمینہ 7136ارب روپے لگایا گیا ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے اس فرق کو ختم کرنے کی یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ اس سال صوبے اپنے حصے کا بجٹ خرچ نہیں کر پائیں گے، 242ارب روپے صوبوں کے خرچ نہ کرنے کی وجہ سے بچ رہیں گے اور اس سے بجٹ خسارہ پورا کیا جائیگا۔

اس کے علاوہ 100ارب قومی اداروں کی نجکاری کرکے حاصل کیے جائینگے۔ 810ارب روپے بیرونی جبکہ 889ارب روپے ملکی بینکوں سے قرض لے کر بجٹ خسارہ دور کیا جائے گا۔

حالیہ بجٹ میں نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کیلئے بھی ڈیڑھ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور بجٹ دستاویزات کے مطابق 750گھر بنائے جائیں گے۔ اگرچہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا مگر جن پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے 750بن بھی جائیں تو باقی 4999250گھر کب اور کیسے بنیں گے؟

عوام کی مشکلات کے پیش نظر حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔ اختتام پذیر ہو رہے مالی سال میں ایف بی آر نے 39سو ارب ٹیکس جمع کیا مگر آئندہ مالی سال کیلئے محصولات کا تخمینہ 49سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔ نئے پاکستان کا کوئی ارسطو ہی رہنمائی کر سکتا ہے کہ اگر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تو پھر 1ہزار ارب روپے کا اضافی ٹیکس کیسے جمع ہوگا؟

اصل بات یہ ہے کہ سبسڈیز میں 48فیصد کمی کی گئی ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں 73فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ بہت جلد منی بجٹ آئیگا جس میں چپکے سے مزید ٹیکس لگا دیے جائینگے اور یوں داد سمیٹنے کے بعد ریونیو میں 1ہزار ارب کا اضافہ کرنے کی کوشش کی جائیگی۔

سابق حکمران جو کرپٹ تھے، پیٹرول پر اضافی ٹیکس لگا کر غریبوں کا خون نچوڑا کرتے تھے مگر موجودہ حکمرانوں نے پیٹرول کی قلت پیدا کر دی ہے، موجودہ حکمرانوں کا یہی وصف ہی انہیں سابقہ حکومتوں سے ممتاز کرتا ہے کہ اگر دنیا کا سب سے بڑا صحرا ’’صحارا ڈیزرٹ‘‘ انکے حوالے کر دیا جائے تو یہ وہاں بھی ریت کی قلت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

آج ہمیں ’’ترقی و خوشحالی‘‘ کے جس عظیم دور کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کیلئے موجودہ حکومت نے دن رات انتھک محنت کی ہے وگرنہ ملک کو اس نہج پر لیکر آنا کوئی آسان ہدف نہ تھا۔

پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2018ء میں 5.8فیصد تھا مگر حالیہ اکنامک سروے کے مطابق جی ڈی پی گروتھ ریٹ منفی 0.4فیصد ہو گیا ہے پاکستان نے ہر قسم کے بحران دیکھے اور انواع و اقسام کی مشکلات کا سامنا کیا، 1971ء میں جب ملک دولخت ہو گیا تب بھی جی ڈی پی گروتھ ریٹ مائنس نہیں ہوا مگر اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ حکومت یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

بجٹ خسارہ جو سابقہ حکومت کے آخری سال 23سو ارب تھا، اب 3437ارب ہوچکا ہے۔ گردشی قرضے جن پر بہت تنقید ہوتی تھی، 2018ء میں 12سو ارب روپے تھے مگر دو سال میں گردشی قرضے 2ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ جب معیشت سے متعلق محولا بالا اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو حکمراں سرد آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں بس کورونا نے مار ڈالا، اگر کورونا نہ آتا تو حالات کچھ اور ہوتے۔

جناب من! کورونا نے پوری دنیا کی معیشت پر اثرات ضرور مرتب کئے لیکن کورونا نہ آتا تو کون سا ہم ایشین ٹائیگر بن جاتے، تب بھی ہمارا جی ڈی پی گروتھ ریٹ منفی 0.2کے آس پاس گھوم رہا ہوتا۔ آپ نے اس اناڑی طباخ کی کہانی تو سنی ہو گی جو شادی کی تقریب میں پلائو بنا رہا ہوتا ہے مگر پانی زیادہ ڈالے جانے کی وجہ سے چاول خراب ہو جاتے ہیں،

وہ منتظمین سے کہتا ہے اگر بارات آنے پر کسی نے پٹاخہ پھوڑا تو چاول جڑ جائیں گے پھر مجھے الزام نہ دینا۔ بارات آنے پر میزبان دوڑ کر جاتے ہیں اور پٹاخے پھوڑنے سے منع کرتے ہیں مگر اس دوران ایک پٹاخہ چل جاتا ہے اور الزام سارا پٹاخے پر آ جاتا ہے۔ ہماری معیشت کی دیگ پکانے والے باورچی کا بھی یہی کہنا ہے کہ کورونا نہ آتا تو ہم ایشین ٹائیگر بن جاتے۔

تازہ ترین