• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘۔ یہ ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے وہ آخری الفاظ تھے، جو اس نے ’’منیاپولس‘‘ شہر میں اس وقت ادا کئے، جب ایک سفید فام پولیس افسر نے اپنے گھٹنے سے اس کی گردن دبوچ رکھی تھی۔ جارج فلائیڈ 9منٹ تک اس بے رحمانہ گرفت سے نکلنے اور اپنی جان بچانے کی اس طرح کوشش کرتا رہا کہ پولیس والے کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ ’’کارِ سرکار میں مداخلت‘‘ کر رہا ہے۔ جارج اس کوشش میں ناکام رہا اور دم گھٹنے سے زندگی کی بازی ہار گیا۔ جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ وڈیو وائرل ہوئی، پورا امریکہ سڑکوں پر آگیا اور برسوں بعد دنیا نے ایک بڑی تحریک ابھرتے دیکھی۔ یہ تحریک امریکہ سے ہزاروں میل دور برطانیہ پہنچی اور پھر یورپ میں پھیل گئی۔ اب آسٹریلیا، لاطینی امریکہ اور دیگر براعظموں تک سب جگہ اس کی تپش محسوس ہو رہی ہے۔ بظاہر تو یہ تحریک امریکی پولیس کے ظالمانہ اور نسل پرستانہ رویوں کیخلاف ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل سے پہلے کئی سیاہ فارم باشندے پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے۔ جارج فلائیڈ کے قتل پر اتنی بڑی احتجاجی تحریک کیونکر بنی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تاریخ میں آخرکار ایک ایسا مرحلہ بھی آتا ہے، جب گھٹن بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ جارج فلائیڈ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کیلئے الفاظ فراہم کئے ہیں ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘۔ ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یہی کہنا چاہتا تھا۔ 20ویں صدی کے چھٹے عشرے میں جب امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک چل رہی تھی اور ایک سیاہ فام نوجوان مارٹن لوتھر کنگ جونیئر عظیم لیڈر کے طور پر سامنے آ رہے تھے، اسی زمانے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے تحریک کی چنگاری کو شعلوں میں بدل دیا۔ یکم دسمبر 1955ء کو منٹگمری میں ایک سیاہ فام امریکی خاتون روزا پارکس ایک بس میں سفر کر رہی تھی۔ اسے ایک سفید فام کیلئے سیٹ خالی کرنے کیلئے کہا گیا مگر اس نے سیٹ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس واقعہ سے جیسے پورے امریکہ میں آگ لگ گئی۔ جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد جو تحریک چلی ہے، وہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے زمانے کی سول رائٹس موومنٹ سے بھی بڑی تحریک ہے جس کے اثرات نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں نہ صرف سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے بلکہ ان کی سیاسی حرکیات بھی تبدیل کر دی ہیں۔ اس تحریک کے عالمی اثرات کا اندازہ لگانا ابھی قبل ازوقت ہے۔

’’سیاہ فام لوگوں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں‘‘ اس تحریک کو یہ عنوان دیا گیا ہے۔ اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ پہلی تحریک ہے، جس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور جو استحصالی و استبدادی طاقتوں کی مرضی کے خلاف ہے۔ کافی عرصے سے کرہ ارض پر سیاسی گھٹن کا ماحول تھا۔ جارج فلائیڈ نے دنیا کے لوگوں کو بتا دیا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہے، امریکہ سے شروع ہونے والی تحریک نے سیاسی گھٹن سے نکلنے کا راستہ بنایا ہے اور تین عشروں سے چھائی مایوسی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ لیفٹ اور رائٹ، غریب اور امیر، سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان تضاد ختم نہیں ہوا، جیسا کہ اب سے کچھ دن پہلے سمجھا جا رہا تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریک ایسے حالات میں شروع ہوئی جب پوری دنیا کورونا وائرس کے خوف سے گھروں میں بند ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے ملنے سے کترا رہا ہے۔ یہ تاریخ انسانی کا وہ عرصہ ہے جو سامراجی طاقتوں کیلئے آئیڈیل ہے کیونکہ پوری دنیا میں سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں لیکن امریکہ میں نسل پرستی اور پولیس مظالم کے خلاف شہری حقوق کی بھرپور تحریک نے ثابت کر دیا کہ جب انقلاب کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچتے ہیں۔نسل پرستی کے خلاف یہ تحریک ظلم اور ناانصافی کے خلاف عالمی تحریک کا روپ دھار چکی ہے۔ سیاہ فام لوگوں کے خلاف سفید فام اور دیگر رنگ و نسل کے لوگ بھی اس تحریک میں شامل ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ نفرت کا خاتمہ نفرت سے نہیں کیا جا سکتا، نفرت کا خاتمہ صرف محبت سے ہو سکتا ہے۔ نسل پرستی کے خلاف اس تحریک کو نسل پرستوں کے ہاتھوں میں یرغمال نہیں ہونے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری نسلوں کے لوگ سیاہ فام باشندوں کے ساتھ ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ایک اور بات یہ کہی تھی کہ عدم تشدد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیکھو اور انتظار کرو، بلکہ جب بھی ضرورت ہو، ظلم اور ناانصافی کے خلاف احتجاج میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

اس وقت پاکستان میں جو حالات ہیں، اس میں لوگ ان الفاظ میں چھپے کرب کو محسوس کر سکتے ہیں کہ ’’میں سانس نہیں لے سکتا۔‘‘ سوشل میڈیا پر پاکستان میں بھی یہ الفاظ کسی نہ کسی طرح ابلاغ کریں گے لیکن ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہماری سیاسی قوتیں نسل پرستی، لسانیت، فرقہ واریت اور گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے یہ الفاظ ہمارے حلق میں پھنسے رہیں ہوں لیکن کب تک۔ امریکہ سے اٹھنے والی تحریک کے اثرات یہاں تک بھی ضرور پہنچیں گے۔

تازہ ترین