• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیٹرول کی قلت، 3 نجی آئل کمپنیاں ذمہ دار قرار

پیٹرول کی قلت، 3 نجی آئل کمپنیاں ذمہ دار قرار 


کراچی(رپورٹ/ طلحہ ہاشمی) پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ پر وزارت پٹرولیم کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ ارسال کردی ہے، ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں نجی تیل کمپنیوں کو موجودہ بحران کا ذمےدار قرار دیتے ہوئے کارروائی کی سفارش کی گئی ہے بلکہ نجی آئل ٹرمینلز پر پٹرولیم مصنوعات کی اسٹوریج کے لیے بنائے گئے ٹینکس کو بھی نہ صرف خطرہ قرار دیا ہے بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کے لیے اختیارات بھی طلب کیے گئے ہیں۔

موجودہ پٹرول بحران پر وزارت پٹرولیم کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں نجی آئل کمپنیز ذمےدار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بحران میں پی ایس او کے آئل ٹرمینلز 24 گھنٹے کام کرتے رہے، اس بحران سے قبل پی ایس او کا مارکیٹ شیئر 32 سے 36 فیصد تھا، تاہم بحران کے دوران تیل کی مسلسل سپلائی کے باعث مارکیٹ شیئر 54 فیصد سے زائد ہوگیا۔

جن تین کمپنیز پر مقدمات ہوئے وہ مارکیٹ شیئر زیادہ لے رہی تھی اور بحران میں وہ بہت کم ہوگیا، ایک نجی کمپنی کے پاس پورٹ قاسم اور کیماڑی آئل فیلڈ میں 54 ہزار میٹرک ٹن تیل تھا، اس کمپنی کا پٹرول مارکیٹ شیئر 9 سے 14 فیصد کے درمیان تھا جو پٹرول سپلائی نہ کرنے پر 11.2 فیصد تک گر گیا، اسی کمپنی کا ڈیزل مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.7 فیصد تھا جو بحران میں 8.3 فیصد تک گر گیا، دوسری کمپنی کے پاس کیماڑی اور پورٹ قاسم آئل فیلڈز میں 43 ہزار میٹرک ٹن پٹرول موجود تھا۔

اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.3 فیصد تھا جو بحران میں 7.6 فیصد ہوگیا، اسی کمپنی کا ڈیزل مارکیٹ شیئر بحران سے قبل 8.6 تھا جو بحران میں 5.7 فیصد رہ گیا۔ تیسری کمپنی نے 27 مئی کو 3 ہزار میٹرک ٹن پٹرول درآمد کیا، تاہم 27 مئی سے 8 جون تک صرف 280 میٹرک ٹن پٹرول پمپس کو سپلائی کیا، اسی کمپنی نے 6 جون کو دوبارہ 5 ہزار میٹرک ٹن پٹرول درآمد کیا لیکن مارکیٹس میں فوری نہیں بھیجا، بحران سے قبل اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر 2.3 فیصد تھا جبکہ بحران میں یہ 0.6 فیصد رہ گیا۔۔

اس طرح یہ تیل کمپنیاں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں، ایک اور بڑی تیل کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے قبل 10.2 فیصد جبکہ بحران میں 6.1 فیصد رہ گیا، اسی طرح دیگر تیل کمپنیوں کے مارکیٹ شیئر میں بھی نمایاں کمی ہوئی، مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ ان تمام کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ایکشن لیا جائے، ان تمام کمپنیوں کو طے معیار پر پورا نہ اترنے پر ایک ماہ شوکاز نوٹس دیا جائے، اگر ایک ماہ میں انکی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی تو لائسنس معطل کردیا جائے۔

آئل ریفائنریز ملکی اثاثہ ہیں، ضروری ہے کہ وہ جون اور جولائی میں زیادہ سے زیادہ کام کریں، پانچ نجی تیل کمپنیوں کے پٹرولیم مصنوعات کے ٹینکس میں سیفٹی رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزیاں پائی گئی ہیں جبکہ بیشتر کمپنیوں نے نجی آئل ٹرمینلز پر کیمیکلز اسٹوریج کے لیے ٹینکس بنائے جس کو بعد میں انھیں پٹرولیم مصنوعات اسٹوریج میں تبدیل کر دیا گیا اور کسی بھی حادثے کی صورت میں بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے، مشترکہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایچ ڈی آئی پی اور ایکسپلوزو ڈپارٹمنٹ کو انکے خلاف سخت ایکشن کے اختیارات دیئے جائیں۔

تازہ ترین