• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ ایم کیوایم کے بانی سیکریٹری جنرل عمران فاروق کی کہانی، ان کی زندگی اور قتل اسی طرح سے پُراسراررہا جیسے وہ خود تھے۔ ان کی کہانی تین ملزمان کی عمر قید یا ایم کیوایم کے بانی کومفرورقراردیئے جانے پرختم نہیں ہوسکتی۔ سچائی کو تلاش کرنے میں کئی سال لگ سکتےہیں۔

ڈاکٹر عمران فاروق 80کی دہائی کے کئی دوسرے پارٹی لیڈرزکی طرح طِب کے شعبے سے وابستہ تھے جنھوں نے اپنے طریقےسےپارٹی میں ’سرجیکل ‘ کام کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اورشکاربن گئے۔ وہ اس وقت لندن میں سامنے آئے جب سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے پاکستان میں مارشل لاءلگایا اور اقتدار میں ان کے 9سال 12اکتوبر 1999سے2008تک غالباً ایم کیوایم کیلئے بہترین وقت تھا۔

ڈاکٹرعمران فاروق پارٹی میں دوبارہ شامل ہوئےاوربانی ایم کیوایم نےاعلان کیا کہ ’کنوینئرواپس آگیا‘۔ ان کے پارٹی کےبانی الطاف حسین سےکنوینراور پارٹی کے بانی کےدرمیان’چین آف کمانڈ‘ پر اختلافات پیدا ہوگئےاور جب معاملات طے نہ ہوئے تو انھوں نے کنوئنیرشپ چھوڑ دی۔

اسلام آباد میں پیرکو ایک انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نےتین ملزمان کو ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل میں عمرقید کی سزاسنائی اور ایم کیوایم کے بانی کو مفرورقراردیا، ان پر انھیں قتل کرنےکی سازش کا الزام ہے۔ تاہم ایم کیوایم لندن نے ایک پریس کانفرنس میں فیصلے کوردکیا اورپارٹی کے بانی اور قتل کی سازش سے متعلق فیصلےکےپیراگراف کوسیاسی محرکات پر مبنی قراردیا۔

لندن اور پاکستان میں سینئر پارٹی لیڈرز بشمول وہ جو ڈاکٹرعمران فاروق کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنےوالوں کےساتھ بیگ گرائونڈ انٹرویوزمیں کوئی بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ وہ کبھی بھی ایم کیوایم کا کوئی گروپ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی کوشش بانی کےخلاف بغاوت کی کوشش کررہے تھے۔

ایک سینئر پارٹی لیڈرجولندن میں ان کے قریب رہے نےفون پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا،’’وہ ایک پارٹی مین سب سےزیادہ منظم انسان تھےورنہ کوئی بھی دوسراایم کیوایم کارہنمااتنےطویل عرصےتک انڈرگرائونڈنہیں رہا۔انھوں نےپانےعزم ظاہر کیا۔ انھوں نےہمیشہ بانی کی عزت کی لیکن جب بات تنظیمی معاملات کی ہوتو میں نے انھیں مضبوط موقف اپنانے والا پایاحتٰی کہ بانی کی ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے اختلافات تین معاملات پر تھے۔ (1) بانی اور کنوئنیرکے درمیان چین آف کمانڈ، ڈاکٹر عمران فاروق بار بار تینظیمی سیٹ اپ میں ان تبدیلیوں پر خوش نہیں تھے جو انھوں نے کیں لیکن بانی انھیں اعتماد میں لیے بغیر ہی رد کردیں۔

(2) پارٹی میں کرپشن اور مختلف سطحوں پر فنڈز کے غلط استعمال کی بڑھتی ہوئی شکایات پر اور

(3) ان دونوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کھوناشروع کردیاتھا اور ایک مرحلے پر ڈاکٹرصاحب نے بانی سے کہاکہ انھیں برا نہیں لگے گا کہ اگر آپ کنوئنیرکیلئے کسی اور کاانتخاب کرلیں۔

انھوں نے کہا، ’’ اس سب کے باعث ان کی رکنیت کئی بار معطل ہوئی اور ہمیں پاکستان میں ان کے خلاف وال چاکنگ کی اطلاعات موصول ہوئیں۔‘‘ ان کے قتل سے ایک ہفتہ قبل بانی انھیں واپس بطورکنوینیرلانا چاہتے تھے اور پارٹی کے چند سینئرلیڈرز کوبھی بھیجالیکن ڈاکٹرنے نرمی سے ان سے کہاکہ اگرچہ وہ پارٹی سے مکمل طورپر سنجیدہ ہیں اور اس کی تمام پالیسیوں پر عمل کیا ان کیلئے کنوینیرشپ قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا،’’ایک دن انھوں نے آفس میں اپنا سامان پیک کیا اور چابی حوالے کی اور کبھی واپس نہیں آئےاگرچہ وہ ایم کیوایم کے ساتھ آخری دم تک وفادار رہے۔‘‘

ایم کیوایم کےایک اور سینئررہنما کا ماننا ہےکہ ڈاکٹرعمران دوبارہ سامنے آنے کےبعدپارٹی کی بدلتی ہوئی ڈائنامکس کے ساتھ ایڈجسٹ نہ کرسکےاور انھیں دوبارہ اعتماد بحال کرنے میں دوماہ لگے۔

انھوں نے بتایا، ’’مجھے ڈاکٹرعمران فاروق میں کچھ کمی لگی، میں 80کی دہائی سےجانتا تھا، جب طویل عرصےتک غائب رہنےکےبعد وہ سامنے آئے اور بہت سوں کو حیران کردیا جب وہ لندن میں اچانک سامنے آئے اور بانی نے اعلان کیاکہ کنوینئرواپس آگیا ہے۔‘‘ پارٹی کیڈر کیلئے ان کاقتل سب سے بڑا دھچکہ تھا جوانکی ایم کیوایم میں بطورسب سےزیادہ منظم شخص اورپارٹی کو منظم کرنےوالےشخص کےطورپرعزت کرتےتھے۔

یہ اس حقیقت سےبھی عیاں ہےکہ ایم کیوایم ان کےقتل کےبعد متحد نہیں ہوسکی۔ تنظیمی سیٹ اپ میں کمزوریاں پہلی بار 2013کے انتخابات میں سامنےآئیں ،جب ایم کیوایم کے اپنی سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود بانی نے ایک پریشان کن تقریر کی لیکن پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط چیلنجر اور خطرے کے طورپر سامنےآئی۔

ایم کیوایم رہنمانے کہا،’’پہلی بار ایم کیوایم کیڈر کے خاندانوں نے پی ٹی آئی کیلئے ووٹ کیا جس سے پارٹی لیڈرشپ پریشان ہوگئی اور اس کی صفوں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔‘‘

ایک اردو سپیکنگ دانشور جو کبھی پارٹی کی تعریف کیا کرتے تھے اور ان کیلئے دو یا تین الیکشز میں ووٹ کیا نے مجھے بتایا،’’بعد میں اس کا نتیجہ مزید تقسیم کی صورت میں نکلا، اور پہلے ایم کیوایم کے کچھ سینئررہنما جیسے انیس قائم خانی ، سید مصطفیٰ کمال ، انیس ایڈووکیٹ، رضا ہارون، ڈاکٹر صغیر احمد اور دیگر نے خاموشی سے پارٹی چھوڑ دی ، 2016میں وہ دوبارہ سامنے آئے اور پاک سرزمین پارٹی بنالی۔ پی ایس پی میں بھی بعض کی ناراضگی کی رپورٹس ہیں ۔

2016 میں کچھ ماہ بعد ایم کیوایم میں تباہی ہوگئی، جب اس کے بانی نے کچھ پاکستان مخالف نعروں کے ساتھ ایک تقریر کی، جو ایم کیوایم کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ ان پرنہ صرف ٹی وی سکرین پرپابندی عائدکردی گئی بلکہ یہ نائن زیرو میں پارٹی ہیڈکوارٹرز ،عزیزآباد ، ایم پی اے ہوسٹل، ایم کیوایم سیکریٹریٹ اور جناح پارک کے قریب کسی بھی عوامی جسلے کی مستقل بندش کا باعث بنا۔

یہ ایم کیوایم لندن اور ایک کیو ایم پاکستان میں بھی پھوٹ کا باعث بنااور پھر انھوں نے پارٹی کے بانی کو برطرف کردیا پارٹی کا آئین تبدیل کردیا۔ پارٹی مزیدتقسیم بھی ہوگئی اور اس کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنا دھڑابنالیا۔

یہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد کے کچھ واقعات تھے اور واضح طورپر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پارٹی کیلئے کتنے اہم تھے۔ اگرچہ ایم کیوایم نے 2018میں زیادہ سیٹیں حاصل کیں لیکن وہ ’سیاسی انجینرنگ‘ کے سامنے مزاحمت کرنے کی طاقت اور قوت کھوچکے تھے۔ پارٹی میں مزید تقسیم دیکھ کر میں حیران نہیں ہوا۔ تاہم ان کے کچھ نقاد مانتے ہیں کہ وہ اپنے ہی اندازِ سیاست کا شکار بن گئے۔‘‘ مجھے افسوس ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایم کیوایم کی لیڈرشپ 1988 کی بڑی فتح کے بعد اپنائی گئی سیاست کا شکار بن گئی۔‘‘

جہاں تک ان کے کیس کی تفتیش کا تعلق ہے تو دونوں برطانیہ اور پاکستان کی انتطامیہ کے پاس ’عدم تعاون‘ کی اپنی وجوہات ہیں ، جیسا کہ ایک تفتیش کار نے انکشاف کیا۔‘‘ انھوں نے بتایا،’’برطانوی پولیس کا ماننا ہے کہ پاکستان کو ملزمان ان کے حوالے کرنے چاہیئے کیونکہ واقعہ لندن میں ہوا اور دوئم، انتظامیہ کو وہاں مشکلات پیش آسکتی ہیں جبکہ پاکستانی ایجنسیز کو برطانیہ میں اپنے شکوک تھے۔‘‘

آخر میں ٹرائل پاکستان میں کیا گیا اور برطانوی پولیس نےایک شرط پر تمام متعلقہ دستاویزات حوالے کردیئے کہ ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی کیونکہ برطانیہ سزائے موت کےخلاف ہے۔ لیکن ایم کیوایم کے بانی کو ملک بدر کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ انھیں پہلے ہی ایک ’نفرت انگیز تقریر‘ کرنے کے کیس کا سامنا ہے۔ ان کا تعلق نوجوان ’مہاجرین‘ کی نسل سے ہے جو شہری سندھ میں اردوبولنے والوں کے ساتھ ہونےوالی ناانصافی کے خلاف تھے۔

پاکستان میں کوئی اور پارٹی اپنے پیروکاروں کے ذہنوں پر حکمرانی نہیں کرسکی جیسا ایم کیوایم نے غیرمثالی الیکٹورل پاور سے کیا لیکن اس نے اپنی سیاست خراب کرلی اور اپنی ہی تخلیق کا شکار ہوگئی جس نے دوسری طاقتوں کو انھیں استعمال کرنے کی اجازت دی، لیکن کس قیمت پر؟

ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی میں ’رجمنٹیشن‘جیسے نظم وضبط پر یقین رکھتے تھے اور آخر میں اسی کا شکار ہوگئے۔

تازہ ترین