• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں معروف کالمسٹ اور ایک نفیس دانشور ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی اسکروٹنی کے دوران ریٹرننگ افسران کی جانب سے محض اس بنیاد پر مسترد کردیئے گئے کہ انہوں نے نام نہاد نظریہ پاکستان کے بارے میں ایک یا دو یا چار یا دس کالم لکھے ہیں۔ یار لوگوں نے اسے سمجھے بغیر دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کے خلاف سمجھ لیا اور اس پر ملکی اخباروں، رسالوں میں ایسی ہوا چلنے لگی ہے جس کی سمت تونظر آتی ہے سبب سمجھ میں نہیں آتا، مسئلہ وہی ہے کہ کیا آپ دقیانوسی، روایتی، غیر جمہوری اور سکہ بند تصورات اور سوچ کے ساتھ ہیں یا ذہنی کشادگی اور ترقی پسندی کا ساتھ دینا چاہتے ہیں، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں ذہنی کشادگی، ترقی پسندی، آزادی فکر اور جمہوری روایات کی جانب رہنا پسند کروں گا۔ مجھے ان تمام لوگوں سے ہمدردی ہے جو ملکی دگرگوں ( یہ لفظ ہلکا ہے) حالات کی وجہ سے سچ بولنا نہیں چاہتے یا بول نہیں سکتے لیکن اگرایاز امیر نے سچ بولنے کی کوشش کی ہے تو اتنی چھینکیں مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مکمل سچ شاید کوئی شخص نہ بول سکے لیکن کیا ایاز امیر کا سچ کی طرف چند قدم بڑھانا غنیمت نہیں ہے؟
برسوں سے فضا میں ایک واویلا سنائی دے رہا ہے بہت سے نابالغ بزرگ اور بزرگ طبع نابالغ منہ آسمان کی طرف اٹھا کر دھائی دے رہے ہیں کہ نظریہ پاکستان خطرے میں ہے اور دو قومی نظریہ ختم ہونے کو ہے۔ اسلام خطرے میں ہے، تقسیم ہند سے پہلے مسلمان خطرے میں تھا اور اب پاکستان خطرے میں ہے، اے خدا! تو ہماری مدد کو آ۔ لوگ ہماری ”زریں روایات“ سے باغی ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ واویلا پرانے اور نئے میں، ناتواں اور توانا میں، خدشہ اور خواہش میں ایک ملک گیر تضاد کی علامت ہے وہ لوگ جو مذہب اور روایات کا کار جلیلہ اپنے ناتواں کندھوں پر لئے کھڑے ہیں اس بنیادی اور عالمگیر حقیقت و سچائی سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں کہ نسلوں کے شعور ان کے مادی صورت حال کتنے متشکل و متعین ہوتے ہیں زندگی کا ایک محکم اصول یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک بے معنی نعرہ لگا رہے ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ہم ان بے معنی نعروں کو نظرانداز کرکے یہ دیکھیں کہ تاریخ کی طاقتیں کس طرف جارہی ہیں کہ زندگی میں بالآخر جو چیز باقی رہ جاتی ہے وہ تاریخ کی طاقتیں ہیں نہ کہ کچھ غیر سنجیدہ اور گئے زمانے کے لوگوں کے بولے ہوئے الفاظ۔
دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کیا ہے؟ برطانوی برصغیر کا خود ساختہ تضاد ہندو مسلم تضاد تھا جو ہندووٴں اور مسلمانوں کے باہم اور متواتر حاکم و محکوم تعلق سے ہندو بنیوں کی لوٹ کھسوٹ سے شدید سے شدید تر ہوگیا اور بالآخر دو قوموں کی مصنوعی صورت حال میں حل ہوگیا۔ تضاد کے مرجانے کے بعد عوامل اور عناصر اپنی پہلی حالت میں نہیں رہ سکتے بلکہ نئی صورت حال میں آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔ مذہبی اختلافات اس وقت تک ہی زندہ رہ سکتے ہیں جب تک ان مذاہب اور ان معاشرتی مفادات کیلئے لڑنے والے باہم ٹکراتے رہیں۔ مسلمانوں کا ایک الگ علاقہ (پاکستان) الگ حکومت اور الگ حیثیت کا مالک بن جانے کے بعد ان کا ہندووٴں کے ساتھ مسلسل ٹکراوٴ ختم ہوگیا اور ان کی تہذیب اور ان کا مذہب مکمل تباہی کے خطرے سے نکل گئے۔ اب پاکستان کے لئے یا بنگلہ دیش کیلئے مذہب یا نظریہ پاکستان یا نظریہ بنگلہ دیش یا دو قومی نظریہ کے موضوع پر پریشان ہونے کا کوئی جواز تھا؟ اور مستقبل میں جو جغرافیائی توڑ پھوڑ ہونے کا امکان ہے اس کا دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان سے کیا علاقہ بنتا ہے؟ تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد دو قومی نظریہ نامی چڑیا اپنے گھونسلے کو خیر آباد کہہ چکی ہے۔
نظرہونا اور بات ہے اور نظریہ ہونا دوسری بات ہے، نئی نسل وہ نسل ہے جس نے دو قومی نظریہ یا پاکستان کے اعلان کے بعد ہوش سنبھالا۔ اب اس نسل کیلئے تحریک آزادی، اکھنڈ بھارت تحریک، اور تحریک پاکستان کی حیثیت تاریخی واقعات کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں ان کا علم تاریخ کی کتابوں کے ذریعے ملا ہے انہیں خود اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں جب نئی نسل نے ہوش سنبھالا تو اس وقت ہندوستان کی تحریک آزادی کے بنیادی تضادات حل ہو چکے تھے تحریک آزادی میں برصغیر کے تمام طبقے اور تمام گروہ غیر ملکی استبداد کے خلاف عمل کے میدان میں متحد تھے مگر تحریک پاکستان کے حوالے سے دو آرا تھیں، کئی مذہبی جماعتیں (26بڑی جماعتوں میں سے 23تقسیم ملک کے خلاف تھیں) بھی پاکستان کی تخلیق کے خلاف تھیں مگر جہاں ان کا مہیب تضاد برطانوی استعمار کے خلاف تھا دوسرا بڑا تضاد ملک کے اندر دو بڑے گروہوں کا آپس میں بھی تھا یہ دو گروہ ہندو اور مسلمانوں کے گروہ تھے ان گروہوں کا برطانوی استعمار کے خلاف مشترکہ تضاد خالص معاشرتی، معاشی اور سیاسی تھا (مذہبی اس لئے نہیں تھا کہ تعداد کے لحاظ سے مسلمان اب بھی بھارت ہی میں زیادہ ہیں۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش کی روشن مثال بھی ہمارے سامنے ہے) لیکن ان گروہوں کے آپس کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی تضادات کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ آزادی کے قریب آتے آتے ہندوستان کے ان گروہوں کے درمیان تضادات زیادہ واضح اور گہرے ہوتے گئے اور یوں آزادی اور تقسیم کے مراحل ایک ہی جست میں طے ہوگئے۔ پاکستان کی تخلیق کے بعد ہندووٴں کے ساتھ تضادات ختم ہوجانے کے بعد پاکستانی قوم اپنی حالت زار اور اندر کے مسائل سے دوچار ہوئی، داخلی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی کھل کر سامنے آگیا کہ جو لوگ ”خوشحالی“ پانے میں کامیاب ہوگئے انہوں نے اقتدار اعلیٰ کی طرف دھیان دینا شروع کیا اور جو لوگ اس دوڑ میں یعنی بدعنوانیوں کے عمل میں پیچھے رہ گئے مستقبل سے خفگی اور مایوسی کا اظہار کرنے لگے اس طرح عام مایوسی کی فضا پیدا ہوتی چلی گئی، ایسی صورت حال میں دو قومی نظریہ کا کیا ہوا؟ اگر وہ موجود ہے تو تھیلے سے باہر لائیں اور مسائل حل
کیجئے ورنہ تاریخ کی طاقتوں کا ساتھ دیتے ہوئے اور زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھئے، مگر میں جانتا ہوں اور ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نیک ارادوں سے ملک کو جہنم بنایا جاسکتا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کی موجودگی پر زور دینے والے اس بات پر متفق ہو نہیں پا رہے کہ اس نظریہ کا بانی کون تھا۔ کوئی اسے علامہ اقبال کے کھاتے میں ڈالتا ہے توکوئی اسے محمد علی جناح کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ کوئی اسے سر سید کی ایجاد سمجھتا ہے تو کوئی اسے عبدالحلیم شرر کے ہفت روزہ کے صفحات میں تلاش کرتا ہے کوئی اسے مولانا محمد علی جوہر کے سرپر رکی ٹوپی سمجھتا ہے تو کوئی اسے منصوبہ ساز عبدالباری خیری اور عبدالستار خیری کو سمجھتا ہے، کوئی اسے عبدالقادر بگرامی کے مہاتما گاندھی کے نام لکھے خط سے عیاں کرتا ہے کوئی اسے مولانا شوکت علی کی ایک تقریر کو بنیاد بناتا ہے جس میں انہوں نے ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کا فلسفہ پیش کیا تھا، کوئی اسے مولانا حسرت موہانی کا نظریہ سمجھتا ہے اور کوئی اسے لالہ جسپت رائے کے ذہن کی مسلم دشمن اختراع سمجھتا ہے اور کوئی اسے انگریزوں کا نظریہ ضرورت قرار دیتا ہے اور یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ مرحوم زیڈ اے سلہری اسے محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد پر معمور کرتے ہیں۔ انتہا یہ ہے افسانہ نگار مرحوم اشفاق احمد نے یہ تک کہہ دیا کہ ”دو قومی نظریہ کوئی تحریک پاکستان کے سیاسی مفکرین کی منطقی پیداوار نہیں ہے، جب رسول اللہ اس دنیا میں تشریف لے آئے تو دو قومی نظریہ پیدا ہوگیا“۔ سو پیارے ایاز امیر اس تمام تر صورت حال کے باوجود آپ کو مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ عمل ہمیشہ فکر کے تحت ہوتا ہے فکر اگر صحیح نہ ہو تو عمل بھی صحیح نہ ہوگا، یہی جڑ کی بات ہے جو قومیں ماضی کے سہارے زندہ رہتی ہیں وہ آثار قدیمہ کا حصہ بن جاتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان یا جو بھی ہے کو بھول کر اور ماضی کے جنجال سے رہائی پاکر پاکستان کے حقیقی و باطنی مسائل کا شعور اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں نیا احساس جو اس بنیاد پر ایک نئی تعمیر کا نقشہ متعین کرتا ہے کو سمجھنا چاہئے۔ یہی تاریخ کا تقاضہ ہے یہی عقل کا فیصلہ ہے اور اسی میں ملک شاد باد کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے اس کے سوا جو کچھ ہے وہ نعرہ بازی ہے نہ کہ کوئی واقعی نظریہ۔ یا کوئی حقیقت سیاست۔ ان حقائق کو پس و پشت ڈال کر برائیوں کے خاتمے کی امید رکھنا بغیر بیج بوئے فصل اگنے کا انتظار کرنے کے مترادف ہے۔
کتنی دیواریں کھڑی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر ہمارا بٹ گیا دیوار و در کے درمیاں
تازہ ترین