اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنتھیا ڈی رچی کی مقدمہ درج کرنے کے عدالتی فیصلے کیخلاف درخواست خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت انکوائری اور انوسٹی گیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ، ایف آئی اے انکوائری میں مواد کے جائزے کے بعد رائے قائم کریگی کہ پیکا ایکٹ کے تحت کیس درج کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ براہ راست مقدمہ درج کرنیکا نہیں ،ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا ہے۔ پیر کو عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سنتھیا ڈی رچی کی مقدمہ اندراج کے عدالتی حکم کے خلاف درخواست میرٹ پر پورا نہ اترنے کے باعث خارج کر دی، دوران سماعت سنتھیا کے وکیل عمران فیروز ملک نے ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ یہ براہ راست مقدمہ درج کرنے کا حکم نہیں ہے ، عدالت نے تو ایف آئی اے کو پہلے انکوائری کا حکم دیا ہے، درخواست گزار کے وکیل نے کہا ہمیں انکوائری پر نہیں صرف مقدمہ اندراج والے حصے پر اعتراض ہے۔ عدالت نے سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالت انکوائری یا انوسٹی گیشن سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ، ایف آئی اے کو انکوائری کا اختیار ہے ، توقع ہے کہ وہ کسی عدالتی آبزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر کارروائی کرے گی، ایف آئی اے انکوائری کے دوران اکٹھا کئے گئے مواد کے جائزے کے بعد رائے قائم کرے گی کہ پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟واضح رہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جہانگیر اعوان نے ایف آئی اے کو سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم سنایا تھا،سنتھیا نے پیپلز پارٹی کی قیادت پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔