• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عشرے کے طویل عرصے بعد ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث مجرموں کو بالآخر سزائیں سنادی گئیں اور یہ پہلی بار ممکن ہوا کہ لندن میں ہونے والا ایک ہائی پروفائل قتل کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے میں تینوں مجرمان خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید اور دس دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا جبکہ بانی متحدہ الطاف حسین، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو مرکزی مجرمان اور اشتہاری قرار دیتے ہوئے اُنکے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔

عدالتی فیصلے کے بعد ایک نئی پیشرفت میں اسلام آباد میں متعین برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسٹین ٹرنر نے فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے برطانیہ اور پاکستان کے تعاون اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مشترکہ کاوشوں کا مظہر اور سنگ میل قرار دیا۔ اُن کے بقول عمران فاروق قتل کے ثبوت و شواہد برطانوی پولیس نے پاکستان کو فراہم کئے جو مجرمان کو سزا دلوانے میں معاون و مددگار ثابت ہوئے۔ لندن پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے طویل تحقیقات کے بعد مجرمان کی نشاندہی اور اُن سے متعلق تمام معلومات پاکستان کو فراہم کیں۔ لندن پولیس نے قتل کیس کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی جس میں عمران فاروق کے قتل سے پہلے محسن علی سید اور کامران کاشف کو ایک دکان سے چاقو خریدتے دکھایا گیا جو عمران فاروق کے قتل میں استعمال ہوا۔

یہ پہلی بار ممکن ہوا کہ پاکستانی عدالت کے فیصلے کو برطانوی ہائی کمیشن اور اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے نہایت شفاف قرار دیتے ہوئے اسے سراہا مگر دوسری طرف پاکستانی عوام مجرموں کو دی گئی سزا سے مطمئن دکھائی نہیںدیتے۔ اُن کے نزدیک پاکستان میں قتل کا جرم ثابت ہونے پر ’’سزائے موت‘‘ مقرر ہے اور موجودہ فیصلہ مجرموں سے نرمی برتنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں عمر قید کا عرصہ 25 سال پر محیط ہے اور جیل مینوئل کے مطابق سزا کو دن رات میں شمار کرنے سے یہ سزا ساڑھے بارہ سال بنتی ہے۔ اگر اس سزا میں سے وہ عرصہ نکال دیا جائے جس میں مجرمان جیل میں رہے تو کچھ سالوں بعد مجرمان دوبارہ معاشرے میں دندناتے پھریں گے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کے دوران برطانوی حکام قتل کے شواہد اس شرط پر فراہم کرنے کو تیار تھے کہ انہیں یہ ضمانت دی جائے کہ قتل میں ملوث مجرمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ ایسی صورتحال میں پاکستانی اٹارنی جنرل کی جانب سے برطانوی حکام کو یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر پاکستان کی عدالت قتل میں ملوث مجرمان کو سزائے موت دیتی ہے تو صدر پاکستان اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجرمان کی ’’سزائے موت‘‘ کو ’’عمر قید‘‘ میں تبدیل کردیں گے مگر برطانوی حکام مطمئن نہ ہوئے اور بضد رہے کہ پاکستان اپنے سزائے موت کے قانون میں ترمیم کرے۔ بعد ازاں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سزائے موت کے قانون میں تبدیلی کی گئی جس کی رو سے ایسے ممالک جہاں سزائے موت کا قانون لاگو نہیں اور وہ ملک کسی کیس میں ملوث ملزم یا شواہد پاکستان کو فراہم کرے تو جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ قانون میں ترمیم کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے 354 صفحات پر مشتمل مختلف شواہد اور سی ڈی جس میں تصاویر اور ٹرانسکرپٹ تھے، پاکستانی حکام کے حوالے کئے۔ اس کے علاوہ 23 گواہوں کی فہرست بھی پاکستان کے حوالے کی گئی جن میں سے کچھ لوگوں نے پاکستان آکر اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

عمران فاروق قتل کیس کے ایک مرکزی ملزم محمد انور نے عدالتی فیصلے کے بعد اپنے حالیہ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے ’’را‘‘ سے قریبی روابط تھے اور ایم کیو ایم لندن، بھارت سے فنڈنگ حاصل کرتی تھی۔ عدالتی فیصلے اور اعترافی بیان کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان، برطانوی حکام سے عمران فاروق کیس کے لندن میں موجود مجرمان کی پاکستان حوالگی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے۔ایک سابق برطانوی قونصل جنرل کراچی میں یہ کہتے سنے گئے کہ عمران فاروق کا قتل پاکستان سے زیادہ برطانیہ کیلئے اہم ہے کیونکہ دنیا بھر کے حکومت مخالف سیاسی لیڈران برطانیہ آکر خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں لیکن حالیہ قتل کے بعد اس کیس کو منطقی انجام تک نہ پہنچانے پر اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ساکھ متاثر ہورہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصلے سے نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ساکھ بحال ہوئی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ برطانوی ہائی کمشنر اور لندن پولیس نے عدالتی فیصلے کو شفاف ٹرائل قرار دیتے ہوئے اِسے پاکستان اور برطانیہ کے تعاون اور قانون نافذ کرنے والوں کی مشترکہ کاوشوں کا مظہر قرار دیا۔ اس طرح برطانوی حکومت مشکل میں پڑگئی ہے ۔ اگر برطانوی حکومت، پاکستان میں موجود مجرمان کو دی گئی سزائوں سے متفق ہے تو عدالتی فیصلے میں شامل بانی متحدہ الطاف حسین سمیت دیگر مجرمان جو لندن میں موجود ہیں، وہ بھی سزا کے مستحق ہیں۔ اس طرح مجرمان کی پاکستان حوالگی کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور حکومت کا کیس مزید مضبوط ہوگیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی حکومت لندن میں موجود عمران فاروق قتل کیس میں ملوث دیگر ماسٹر مائنڈ مجرمان کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرتی ہے یا نہیں؟

تازہ ترین