• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکولوں میں بھجوانے کے لئے ان کو مقدور بھر سہولتیں اور مراعات دے رہی تاکہ شرح خواندگی میں اضافہ ہو اورہم بھی اقوام عالم کی برادری میں اپنا سر فخر سے بلند کرکے کہہ سکیں کہ ہمارے ملک نےسب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا معرکہ سر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ،مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تمام تر دعوئوں کے باوجود پاکستان آج بھی مغربی ممالک تو درکنار جنوبی ایشیا کے کئی ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ پاکستان ایجوکیشنل مینجمنٹ سسٹم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں2 کروڑ چالیس لاکھ 23ہزار بچے اب بھی سکول سے باہر ہیں اور تمام تر جدوجہد کے باوجود شرح خواندگی بمشکل 58فیصد تک پہنچ سکی ہے، اس رپورٹ میں دی گئی مزید تفصیلات کے مطابق5 سے 7سال تک کے 47فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پرائمری سطح پر60لاکھ78ہزار، مڈل سطح پر60لاکھ 4ہزار، ہائی اسکولوں میں 40لاکھ9ہزار اور ہائر سیکنڈری کی سطح پر60لاکھ4ہزار بچے اسکولوں میں بوجوہ داخل نہیں ہوسکے۔ ان اعداد و شمار سے یہ حقیقت پوری طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حکومت ہر طبقے خصوصاً نچلے اور درمیانے طبقے کے بچوں کو اسکولوں میںنہیں لاسکی اوریہ صورتحال کسی ا یک علاقے تک نہیں بلکہ سارے صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ پنجاب میں بھی جہاں وزیر اعلیٰ بچوں کو اسکولوں میں لے جانے کے لئے ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں ایک کروڑ 10لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اگر بچوں کو تعلیم دلانے کے بارے میں ہمارے سارے دعوے محض نعروں تک ہی محدود رہےتو شاید ہم آئندہ کئی عشروں تک اپنی شرح خواندگی کو100فیصد نہ کرسکیں اس لئےضروری ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کرے تاکہ صورتحال میں بہتری آئے۔
تازہ ترین