• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی خاص طور پر اس کا دوسرا نصف حصہ دو طاقتوں اور دو نظریات کے تصادم پر محیط ہے۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام ہے تو دوسری طرف سوشلزم۔ اس تصادم نے ذیلی طورپر کچھ سماجی و سیاسی تحاریک بھی متعارف کرائیں مثلاً تحریک انحصاریت (Dependency) جدیدیت (Modernism) اور جمہوریت وغیرہ۔ اسی زمانے میں عقل و شعور اور ٹیکنالوجی کو بھرپور فروغ حاصل ہوا۔ انسان معمولاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل میں بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے لگا. طاقت و تسلط قائم کرنےکے لئے جو دست بدست مقابلے ہوا کرتے تھے، تلوار اور خنجر کے گھاؤ لگائے جاتے تھے بعد ازاں اس طرز تصادم میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی، بندوق کی گولی سے دشمن کو دور ہی سے گھائل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے بلکہدشمن کو زیر کرنے کے لیے انسان نے ایسے ٹولزبھی تیار کر لیے ہیں جس سے خون ریزی کے بغیر بھی دشمن کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کی نت نئی ایجادات کی مدد سے پروپیگنڈا تھیوری معرض وجود میں آئی جس کا بہترین مظاہرہ امریکہ اور روس کے مابین کئی سال تک جاری رہنے والی کولڈ وار میں کیا گیا اور بالآخر 1991 میں سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی نظریہ سوشلزم کو بھی شکست ہوئی اور ایک مرتبہ پھر Brandization اور گلوبلائزیشن کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت بخش دی گئی جو آج تک قائم ہے۔ تاریخ دان مجموعی انسانی زندگی کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً پتھر کا زمانہ، قرونِ اولیٰ، قرونِ وسطیٰ، دور جدید ؛ تاہم سوال یہ ہے کہ آج کا انسان کس دور میں زندہ ہے؟ اورمستقبل میں جب 2020 کی بات ہوگی تو مؤرخ اس زمانے کو کس نام سے تعبیر کرے گا۔ سماجیات اور فلسفہ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ آج کا انسان Age of confusion یعنی زمانۂ ابہام میں زندہ ہے۔ یہ دور کنفیوژن کا دور ہے جس کا بنیادی نقطہ ہے کہ ’’کچھ بھی واضح نہیں‘‘۔ یوں تو اس دور کا آغاز کولڈ وار سے ہی ہو چکا تھا تاہم 2020سے اس کا عروج شروع ہو چکا ہے۔درمیانی وقت میں ہم نے دیکھا کہ سرد جنگ میں کس طرح اسلحہ و بارود کے بجائے پروپیگنڈا کا استعمال کیا گیا۔ بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دونوں عالمی جنگوں کی ٹھوس وجوہات سب کو معلوم ہیں تاہم سرد جنگ کے سر پیر کو تلاش کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں پہلی بار پروپیگنڈا کےلیے میڈیا کا استعمال اسی زمانے میں شروع ہوا، یاد رہے پروپیگنڈا معروضی کنفیوژن کا پہلا ہتھیارہے جبکہ موضوعی کنفیوژن کا پہلا ہتھیار معلومات کی زیادتی ہے۔ گویا متحدہ روس کا ٹوٹنا کنفیوژن کی پہلی کارستانی قرار دی جا سکتی ہے۔ بعد ازاں دنیا نے دیکھا کہ عالمی نقشے پر صرف ایک ہی طاقت نظر آنے لگی جس نے صرف نو دس برس کے قلیل عرصے میں ٹیلی کمیونیکیشن اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اس قدر پیش رفت کر لی کہ پل بھر میں پوری دنیا کو خبروں کے ذریعے کنفیوژن سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔اس کا کامیاب تجربہ نئی صدی کے آغاز پر کیا گیا، جب یہ خبر پھیلا دی گئی کہ چونکہ کمپیوٹر سافٹ ویئر میں دو ہزار بیس کا ہندسہ موجود نہیں ہے لہٰذا نئی صدی کا آغاز ہوتے ہی رات 12 بجے دنیا بھر کے کمپیوٹر ناکارہ ہوجائیں گے، پھر کیا ہوا ؟ آپ سب جانتے ہیں یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اس کامیابی کے بعد دوسرا تجربہ نائن الیون کا تھا۔آج تک پوری دنیا اسی بحث میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں جس قدر ذرائع ابلاغ کو فروغ حاصل ہوا ہے اسی قدر عام آدمی کو معلومات بھی میسر آئی ہیں،عراق، لیبیا، افغانستان میں جو جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان میں بڑا ہاتھ میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے پروپیگنڈا کا ہے۔ آج کل شام، یمن، سیریا اور مشرق وسطیٰ وغیرہ میں بھی کنفیوژن تھیوری ہی کام کر رہی ہے۔ لہٰذا آج بھی کوئی ملک جب چاہے اور جیسے چاہے ذرائع ابلاغ کا استعمال پروپیگنڈا کیلئے کرکے کنفیوژن پیدا کرتا اور مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ پروپیگنڈا کنٹرولڈ پروپیگنڈا تھا جب محدود ذرائع ابلاغ تھے مگر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں سوشل میڈیا کی آمد کے بعد میڈیا ریاستی کنٹرول سے آزاد ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے پرکوئی بھی فرد جب چاہےخبریں، تجزیے، جائزے اور رپورٹس وغیرہ اَپلوڈ کر سکتا ہے لہٰذا ہمارے اردگرد معلومات کا جو بہاؤ اس وقت موجود ہے پہلے کبھی نہ تھا۔اس وقت کنفیوژن کی تازہ ترین مثال حالیہ کورونا کی وبا ہے۔ تمام تر ٹیکنالوجی اور شعوری کمال کے باوجود ہر کوئی اس کی حقیقت کے حوالے سے کنفیوز دکھائی دیتا ہے۔ معلومات کی اس بھرمار کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف وائرس بلکہ ممکنہ تیار کی جارہی ویکسین کے حوالے سے بھی نہایت کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ ویکسین ہی انسانیت کے بچاؤ کا واحد حل ہے تو کوئی اسے انسانیت کے لیے مزید خطرہ قرار دیتا ہے۔ حقیقت کیا ہے ؟ کنفیوژن کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ اب اس سے آگے کیا ہے ؟ معلومات کی بھرمار ہمیشہ بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ انسانوں کے لئے فیصلہ کرنے اور درست سمت کا انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انسانوں کے بے ہنگم اجتماع کو جب کوئی بھی راہ سیدھی دکھائی نہیں دیتی تو لازمی طور پرتصادم پیدا ہوتا ہے جس کا انتہائی نتیجہ حادثہ یعنی تباہی و بربادی ہے۔ بیسویں صدی کے تقریباً نصف تک زمانہ سبک رفتاری سے چل رہا تھا۔ دوست دشمن، نفع و نقصان، اچھا اور برا سب واضح تھا مگر ہزاروں سالہ انسانی تاریخ ایک طرف اور بیسویں صدی کے آخری پچاس برس ایک طرف۔ یہاں سے زمانہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب انسانی معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ بجلی کا استعمال گھریلو اور مشینی سطح پر ہونے سے زمانے کی چلن بھی برق رفتار ہو گئی ہے اب جبکہ زمانہ ابہام سرپٹ چال چل رہا ہے تو اسکا طویل دورانیے تک یونہی چلتے رہنا منطقی طور پر محال ہے۔ معلومات کی بھرمار کے باعث کنفیوژن کے دور کا نقطہ عروج ہے تو لازمی طور پر ایک بڑے تصادم کا انتظار کیجئے جو پلک جھپکنے میں موجودہ نقشے کو تبدیل کرکے ایک نئی سادہ سی دنیا آباد کر سکتا ہے۔

تازہ ترین