• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حفصہ صدّیقی

وہ چار بہنوں میں سب سے بڑی تھی، بلا کی ذہین، مگر شکل و صُور ت بس واجبی سی تھی۔ اس کےابّا ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھے ، ساری زندگی کرائے کے گھر میں گزری ۔جب صباحت کی چھوٹی بہنوں کے رشتے آنے شروع ہوئے، تو اس نے امّاں سے کہہ دیا کہ ’’آپ میری فکر مت کریں، چھوٹی بہنوں کی شادی کردیں ۔ مجھے ویسے بھی ابھی آگےپڑھنا ہے۔ ‘‘یوں، ایک ایک کرکے تینوں بہنوں کی شادی ہوگئی، لیکن بہر حال امّاں ابا کو اس کی فکر ستا تی تھی۔ صباحت نے بھی عام لڑکیوں کی طرح لڑکپن ہی سے دُلہن بننے کے خواب پلکوں پر سجا ئے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، اب اُس کے رشتے آنا قریباً بند ہی ہو گئے تھے۔وہ خو د بھی اپنی شادی کے حوالے سے نا اُمید ہی ہو چُکی تھی، لیکن اُس نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پہلے ایم ایس سی، پھر ایم فِل کیا، پھر ایک نجی اسکول میں ملازمت کرلی۔

ارشدسُپر اسٹور والا بھی اُسی کےمحلّے میں رہتا تھا ۔ بچپن ہی میں اس کے والد فوت ہوگئے تھے اور یوں چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمّے داری اس کے کندھوں پر آن پڑی۔ ارشد نے بھی بڑا بھائی بن کر نہیں، باپ بن کر گھر کی ذمّے داری سنبھالی۔ بہن بھائیوں کو تعلیم دلوائی، ان کی شادیاں کروائیں ،مگر ان ذمّے داریوں کی ادائیگی میں وہ اپنی ذات فراموش ہی کر بیٹھا۔ بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوچکے تھے اور اب اُسے اپنے اکیلے پن کا احساس ہورہا تھا۔ان حالات کے پیشِ نظر اس نے محلّے کی خالہ سکینہ سے بات کی،جو فی سبیل اللہ رشتے کرواتی تھیں ۔خالہ سکینہ جھٹ صباحت کی امّاں کے پاس پہنچ گئیں۔’’اے بہن! اپنی صباحت کے لیےبہت اچھا رشتہ ہے۔‘‘ انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا۔ 

اسکول کے بچّوں کی کاپیاں چیک کرتی صباحت کے ہاتھ رُک گئے اور دل تھم سا گیا۔’’خالہ !رشتے تو آپ کے پاس بہت ہوتے ہیں ،لیکن کوئی صباحت کو ہماری غربت سمیت قبول کرےگا ؟‘‘صباحت کی امّاں نے قدرے بے چارگی سے کہا۔’’لو بھئی،یہ بھی تم نے خوب کہی۔ اب تو صباحت بھی اچھا کما رہی ہے، غربت کیسی؟؟ ارشد کو کسی چیز کا لالچ نہیں ہے۔ اسے تو بس اپنی صباحت جیسی سلجھی ہوئی لڑکی چاہیے۔ ‘‘خالہ سکینہ نے ایک ہی سانس میں پوری بات کہہ ڈالی۔’’ارشد …؟؟‘‘امّاں کے تو ارمانوں پر جیسے اوس ہی پڑ گئی۔ ’’خالہ! وہ تو بالکل اَن پڑھ ہے اور اپنی صباحت نے تو وہ کیا ہے، کیا کہتے ہیں انگریزی میں، ہاں ،ایم فل۔ 

سمجھو بچّوں کو پڑھانے والی ڈاکٹر ہے۔‘‘ امّاں کو صباحت کی تعلیم پر فخر تھا۔ ان کے پور ےخاندان میں لڑکیوں نے کبھی میٹرک ، انٹر سے آگے تعلیم ہی حاصل نہیںکی تھی۔ ’’اوہو، کس نے کہا، اَن پڑھ ہے۔ خیر سے میٹرک ہے۔ بہن بھائیوں کی ذمّے داری کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ مَیں تو کہوں گی،تمہیں ضرورغورکرنا چاہیے۔لڑکاکماؤ ہے، آگے پیچھے بھی کوئی نہیں، عیش کرے گی اپنی صباحت۔اورپھراُس نے صباحت کا ہاتھ خود مانگا ہے۔‘‘ خالہ کے منہ سے با ٓلاخرنکل ہی گیا۔’’ کیا…؟؟‘‘ امّاں کو جھٹکا سالگا۔ ’’خالہ! صباحت کے ابّا کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کہہ دینا،ورنہ غضب ہوجائےگا، مَیں خود ان سے بات کرلوں گی۔‘‘

رات کھانے کے بعد امّاں نے ابّا سے رشتے کا ذکر کیا۔’’لڑکا تو اچھا ہے۔‘‘ ابّا کے الفاظ صباحت کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ چھوٹا سا گھر تھا سرگوشیاں بھی دوسرے کمرے میں سُنی جاسکتی تھیں۔’’لیکن صباحت کے ابّا ! ہماری بیٹی بہت پڑھی لکھی ہے۔ اس کے لیے کسی دُکان دار کا رشتہ مناسب ہو گا؟‘‘امّاں کے انداز میں نرم سا احتجاج تھا،ان کا خیال تھا کہ ابا اس رشتے سے فوراً انکار کردیں گے۔ دیکھو، اب میری اور تمہاری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ۔ میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ صباحت اپنے گھر کی ہوجائے اور ارشد میں کوئی ایسی برائی نہیں ، جس کی بنیاد پر رشتے سے انکار کیا جائے۔ وہ شریف ہے، کماؤ ہے اور اس سے زیادہ ہمیں کیا چاہیے۔‘‘ یہ سُن کرصباحت پر تو جیسے پہاڑ آگرا تھا۔ 

جیون ساتھی کے حوالے سے دیکھے سارے خواب چکنا چُور ہوگئے، بلکہ یہ خواب ایک بھیانک تعبیر کی صُورت سامنے آرہے تھے۔ تاہم، وہ ابّا کے خلاف جانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی تھی۔ بہنیں شادی کے بعد اپنے اپنےگھروں میں مصروف تھیں ۔ ویسے بھی وہ اپنی بہنوں کے اتنےقریب نہیں تھی کہ ان سے اپنے دل کی بات کہتی۔ سو، اس نے سارا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا اورخود پُرسکون ہو گئی۔ رشتہ پکّا ہوتے ہی ارشد کے توپاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے تھے کہ محلّے کی سب سے قابل اور تمیز دار لڑکی سے اس کی شادی ہونے جارہی تھی۔

اور پھر…با لآخروہ دن آہی گیا، جس کا امّاں ابّا کو بے چینی سے ، مگر صباحت کو صرف انتظار تھا۔ دُلہن کے رُوپ میں وہ کافی خوب صُورت لگ رہی تھی۔ شاید یہ بھی اس کا سلیقہ ہی تھا، اس سے پہلے محلّے کی کوئی لڑکی اس طرح تیار نہیں ہوئی تھی۔ہلکا میک اَپ ، سادگی کا پیکر ۔ دُلہن کے روپ میں اس کو دیکھ کر تو ارشد کے واقعی ہوش اڑ گئے۔وہ تو بس اس کے کردار واطوار سے متاثر تھا،اعلیٰ تعلیم تو پیکیج میں مل گئی تھی۔ جب اس نے پہلی دفعہ خالہ سکینہ سے بات کی تھی ،تو انہوں نے بھی اسے جھاڑ دیا تھاکہ ’’اپنی شکل دیکھی ہے، کہاں وہ اتنی پڑھی لکھی لڑکی اور کہاں تُو۔‘‘پر اس کے اصرار پر وہ بات کرنے گئی تھیںاورپھر رشتہ منظوربھی ہوگیا۔

شادی کے بعد ابتدائی دن تو ٹھیک گزرے ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ صباحت کو ارشد کے اطوار،بات کرنے کے اندازمیں خامیاں نظر آنے لگیں۔صباحت کا اصرار تھا کہ ارشد اسے’’تُو‘‘ کہہ کر مخاطب نہ کرے، آپ نہیں کہہ سکتا تو کم از کم’’ تم‘‘ کہے۔وہ کوشش کرتا ،لیکن کبھی کبھار اُس کے منہ سے ’’تو‘‘نکل ہی جاتاتھا،جس پر صباحت سخت خفا ہوجاتی۔ شروع میںصباحت کی بات بات پرخفگی کو ارشد نے اس کی ادا سمجھ کر قبول کیا،مگر اب وہ بھی اُلجھنے لگا تھا۔صباحت اس کی ہر بات پر اعتراض کرتی’’آپ روز پینٹ شرٹ پہن کر شاپ پر کیوں نہیں جاتے؟‘‘’’ارےبھئی، میری سودا سلف کی دُکان ہے ۔ کتنے ہی صاف ستھرے کپڑے پہن کر جاؤں،شام تک خراب ہوجائیں گے۔ 

مگروعدہ، مَیں گھر آتے ہی صاف ستھرے کپڑے پہن لوں گا۔ ‘‘ارشد نے اسےپیار سے سمجھایا۔حالاں کہ وہ صباحت سے بارہا کہہ چُکا تھا کہ دُکان کا ایک جوڑا الگ رکھ دوتاکہ پریشانی نہ ہو۔مگر صباحت کو تو اب اُس کی ہر بات ہی پر اعتراض ہونے لگا تھا۔ حالاں کہ وہ صباحت کا بے حد خیال رکھتا تھا، اس کی کوئی فرمایش رَد نہیں کرتا، وہ جیسا کہتی، ویسے ہی کرنے کی کوشش کرتا۔وہ اس کے رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کر رہا تھا، مگر پھر بھی صباحت اُسےسمجھ نہیں پا رہی تھی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اس سے بے تحاشا محبت کرتاہے، بلکہ وہ بھی شاید اُسے چاہنے لگی تھی، لیکن دونوں کی محبت میں فرق تھا۔ ارشد کی محبّت دینے والی تھی اور صباحت کی مطالبہ کرنے والی، ڈیمانڈنگ۔

صباحت اُمید سے ہوئی تو ارشد نے تو خوشی کے مارے پورا محلّہ ہی سر پر اُٹھا لیا۔مگر کچھ ہی روز بعد اچانک صباحت نے ضد پکڑ لی کہ ارشد دُکان بیچ کر کوئی اور کام شروع کردے۔ ارشد تو اُس کی بات سُن کر ہکّا بکّا ہی رہ گیاکہ وہ بھلا اپنا جما جمایا کام چھوڑ کر اور کیا کرے اور وہ بھی ان حالات میں کہ جب وہ دو سے تین ہونے جا رہے تھے۔ارشد کا انکار سُن کر تو وہ ہتّھے ہی سے اکھڑ گئی۔ ’’ٹھیک ہے، پھر جب تک آپ کام تبدیل نہیں کرتے، مَیں اپنے امّاں ابّا کے گھر ہی رہوں گی۔کوئی فیصلہ کرلیں ،تو مجھے بتا دیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنا ضروری سامان باندھا اور والدین کے گھر چلی آئی۔ ارشد بھی اس کی بے جا ضدیں اور باتیں مان کر ا ب تھک چُکا تھا، لہٰذا اُس نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ والدین کے لاکھ سمجھانے کے با وجود صباحت بھی اپنی ضد پر اَڑی ہوئی تھی۔

ایک دن صباحت کے پاس اس کی یونی وَرسٹی کی سہیلی ثمرہ کی کال آئی۔ ثمرہ شادی کے بعد ایک انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھا رہی تھی۔ اس کا شوہر ایم بی اے تھا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔ صباحت کو اس کی زندگی آئیڈیل لگتی ۔ بہت عرصے بعد دونوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملا، تو صباحت نے اسے ارشد کے بارے میں سب کچھ بتادیا۔ ’’یار…!! تم تو بہت خوش نصیب ہو۔‘‘ ثمرہ نے پُر جوش اندازمیں کہا تو صباحت حیران رہ گئی۔’’ مَیں…؟ ایک دُکان دار کی بیوی اورخوش نصیب؟‘‘وہ طنزیہ ہنسی۔ ’’یہ پھل ارشد بھائی نے بھجوائے ہیں ناں؟‘‘ اس نےسامنے رکھے پھلوں کی طرف اشارہ کیا۔’’ہاں‘‘’’تمہیں کپڑے وہی دلواتے ہیں ناں ؟ کس کی پسند کے ہوتے ہیں؟‘‘ ’’میری پسند کے۔‘‘’’ تمہیں پتا ہے ،مَیںاپنےپیسوں کے کپڑے خریدتی ہوں ،پر پسند عاصم کی ہوتی ہے۔انہیں وہ رنگ بالکل پسند نہیں ،جو مجھے پسند ہیں اور مجھے انہی کی پسند ،رنگ اور ڈیزائن کے کپڑےپہننے پڑتے ہیں۔ ہمارے گھر میں صرف عاصم کی پسند کاکھانا پکتاہے، حالاں کہ ہم دونوں ہی کماتے ہیں۔ اس بظاہر خوش گوار زندگی کی جو قیمت مَیںادا کررہی ہوں، تم سوچ بھی نہیں سکتی۔‘‘وہ باتیں جو حالات صباحت کو نہیں سکھاپائے، اس کی سہیلی کی چند باتوں نے سکھا دی تھیں۔

ثمرہ تو چلی گئی، لیکن صباحت کے لیے سوچنے کے بہت کچھ چھوڑ گئی۔ بات تو صباحت کی سمجھ میں آگئی تھی، لیکن اب اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پہل کیسے کرے کہ ہمیشہ توارشد ہی اسے مناتا تھا۔ وہ اسی سوچ میں گُم تھی کہ اچانک ہی امّاں کی آواز آئی۔ ’’صباحت! دیکھو تو ارشد آیا ہے۔‘‘’’کیا… ‘‘حیرت اور خوشی دونوں اس کے لہجے سے عیاں تھے۔’’گھر چلو ، مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔ مَیں نے دُکان پر برائے فروخت کا بورڈ لگا دیا ہے،وہ جلد ہی بِک جائے گی۔‘‘ارشدکا لہجہ غم گین تھا۔ ’’نہیں،آپ فوراً دُکان سے برائے فروخت کا بورڈہٹا دیں۔‘‘’’کیا…؟؟‘‘ وہ صباحت سے ایسی کسی بات کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ’’تمہاری ہی تو ضد تھی۔‘‘ ’’ہاں، پر اب مَیں ہی کہہ رہی ہوں کہ دُکان نہیں بکے گی، جو کام آپ کرتے ہیں، وہی کریں۔میرے لیے آپ اور آپ سے وابستہ ہر چیز محترم ہے ۔‘‘ اس کی باتیں سُن کر صبا حت کی امّاں کو لگا کہ بیٹی کی تعلیم تو کئی برس پہلے مکمل ہو گئی تھی، لیکن اسے اصل شعور آج آیا ہے۔

نا قابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے قلم کار برائے صفحہ’’ ڈائجسٹ‘‘

کورونا وائرس کی وبا کب تک، کمال وارثی، گلشنِ اقبال، کراچی ٭زندگی ایک سہانا سفرہے،ماحول، موسم اور حالات ایک سے نہیں رہتے، محبّت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں، ڈاکٹر عبد العزیز چشتی،٭حضرت محمّد ﷺ کی پاکیزہ زندگی، عمران محمود، را ول پنڈی ٭لاک ڈاؤن کی عید، نا زلی فیصل، لاہور٭کورونا وائرس اور اس کے خوف سے نجات ، محمّد ارشاد، اسلام آباد٭کوئی صُورت نظر نہیں آتی، لاک ڈاؤن اور ہماری زندگیاں، مکافاتِ عمل، مرحبا اے ماہِ رمضان، اُمید پر دنیا قائم ہے، فہیم اختر،لندن٭امّاں جی، ایک سیلفی ہوجائے، حنا کامران، کراچی۔

نا قابلِ اشاعت کلام اور ان کے تخلیق کار

غزل، خالد فاروق، مقام نہیں لکھا٭زندگی کی عید، ذکی طارق، بارہ بنکی، بھارت٭غزل، نور عائشہ ، کراچی٭سب اچھا ہے، بے قدری ،پرویز اقبال، حیدر آباد٭ قطعات، عارف، مقام نہیں لکھا ٭انتہائے بے رُخی، اجنبی کاظمی، عبّاس پور، ہڑپّہ ٭یا الٰہی کورونا سے بچا رکھنا، معین فخر، مقام نہیں لکھا۔

تازہ ترین