• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ _… شہزادعلی
اس وقت برطانیہ میں منگل کی صبح 4 بجے کے وقت ہے، دی ٹائمز لندن کی یہ خوش کن خبر پڑھ رہا ہوں کہ وزیراعظم بورس جانسن فرینکلن روز ویلٹ کی مانند اہمیت خیز طور پر کرونا سے پیدا شدہ معاشی بحران سے نکالنے کیلئے برطانیہ کی معاشی اقتصادی ریکوری کا پلان دیں گے گویا ایک نیو ڈیل کا وعدہ کریں گے، وزیراعظم ایک 5 بلین پروگرام شروع کر رہے ہیں جس سے پینڈیمک کے نتیجے میں جاب مارکیٹ پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی، اس کے تحت ہسپتالوں، سڑکوں، ریلوے، جیلوں، عدالتوں، اسکولوں اور ہائی اسٹریٹس پر کیپیٹل رقم خرچ کی جائے گی، اور کاروباروں کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے تحت مکانات کی تعمیر، ہسپتالوں کے شعبہ حادثات، مینٹل ہیلتھ، اور مختلف سکلز مہارتوں کے حصول کے لیے رقوم مختص کی جائیں گی۔وزیراعظم ایک موازنہ پیش کریں گے کہ جس طرح 32 ویں امریکی صدر نے ریاست کے اختیارات بروئے کار لا کر امریکیوں کی قسمت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے گریٹ ڈپریشن سے نکالنے کیلئے ایک پروگرام سیٹ کیا تھا، ایسا ہی وہ برطانیہ کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کر رہے ہیں، خیال رہے کہ گریٹ ڈپریشن، کساد عظیم دوسری جنگ عظیم سے قبل کی دہائی میں ایک عالمی اقتصادی بحران تھا۔ جومختلف ممالک میں مختلف ادوار میں رہا۔دی گارڈین نے رپورٹ کیا ہے کہ پہلے سے ریلیز کیے گئے اقتباسات کے مطابق وزیراعظم آج (گزشتہ روز بروز منگل) ویسٹ مڈ لینڈ میں اس پراجیکٹ کو پیش کریں گے، ڈاؤننگ سٹریٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ نمبر 10 اس امر کے لیے کوشاں ہے کہ نیوز ایجنڈا پر گرفت مضبوط کی جائے اور مستقبل کے متعلق پیغامات دیے جائیں، جانسن یہ کہیں گے کہ "یہ مثبت طور پر روز ویلٹین محسوس ہوتا ہے، یہ ایک نیو ڈیل کی طرح محسوس ہوتا ہے، میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایسا ہے تو پھر یہ ایسا ہی محسوس کیا جانا چاہئے کیونکہ وقت کی ڈیمانڈ یہی ہے، ایک حکومت جو پاورفل ہے اور جو چاہتی ہے کہ ایک بحران کے وقت میں اپنے بازو اپنے لوگوں کے گرد وا کرے۔ یہ وہ گورنمنٹ ہے جو اس بات کے لیے مکمل طور پر کوشاں ہے کہ نہ صرف کرونا وائرس کو شکست دی جائے، بلکہ اس ملک کو گزشتہ تین دہائیوں سے جو بڑے حل طلب چیلنجز ہیں ان کو بالآخر حل کیا جائے" جبکہ دی گارڈین نے یہ بھی ساتھ دلچسپ تبصرہ کیا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ/ آئی ایم ایف، کی پیش گوئیاں تو بجائے یہ تجویز کررہی ہیں کہ برطانیہ جی 7 کے بدترین اکنامک ڈاون ٹرن کی طرف ہے مگر جانسن یہ زور دیں گے کہ" ہم باونس بیک نہیں کریں گے، ہم باونس فارورڈ bounce forward کریں گے" دی گارڈین اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ وزیراعظم کے ناقدین امکانی طور پر یہ ہائی لائٹ کریں گے کہ اس اعلان میں کوئی نئی رقم نہیں۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ صدر روز ویلٹ نے تو اپنے اردگرد مائرین جمع کر لیے تھے اور جو کچھ کہتا تھا وہ ایکسپرٹس کی آراء کا نچوڑ ہوتا تھا، جبکہ بورس جانسن کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ دکھائی نہیں دیتا۔گارڈین میں ہی دلچسپ طور پر تاریخ کے جھروکوں سے وزیراعظم کو یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ روز ویلٹ تو اس امر کے لیے بھی کوشاں تھا کہ کیپیٹل ازم کو ری میک کرکے غریب اور بے روزگار لوگوں کے لئے معقول بنایا جائے، لیا جانسن بھی ایسا کرسکیں گے؟ 1935 میں اس کی سیکنڈ نیوڈیل نے ورکس پروگریس ایڈمنسٹریشن تخلیق کی، پوسٹ آفسز، پلوں، اسکولوں، ہائی ویز اور پارکوں پر فوکس کیا گیا تھا، ورکس پروگریس ایڈمنسٹریشن نے آرٹسٹوں، رائٹرز، تھیٹر ڈائریکٹرز اور موسیقاروں کو بھی کام دیا، اس نے 1935 میں دی ویجنر ایکٹ پاس کیا اور قومی نیشنل لیبر ریلیشنز بورڈ قائم کیا جو یونین کے الیکشنز کی نگرانی کرے اور جو بزنسیز کو اس امر سے روک سکے کہ وہ اپنے ورکرز کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کریں، جس باعث 1937 تک 8 ملین افراد ٹریڈ یونینوں کو جائن کر چکے تھے۔اس کے قرضے اور سبسڈی کے سسٹم نے 20 ملین جابز تخلیق کی تھیں اس لیے جانسن کے لیے شاید روز ویلٹ کی پیروی دشوار گزار ہو اور وہ اپنیfirst love فرسٹ لوو، پہلی محبت یعنی چرچل کی طرف واپس لوٹ جانا شاید زیادہ محفوظ خیال کریں _۔جبکہ اس متعلق گرین پارٹی کی ایم پی کیرولین لیوکاس نے کہا ہے کہ روز ویلٹ کی نیو ڈیل کے متعلق نقطہ یہ ہے کہ وہ ایک وژنری ڈیل 1930 کے لیے تھی اب 90 سال گزرنے کے بعد ہمیں ایک مختلف وژن کی ضرورت ہے، سو ایک نیو ڈیل نہیں بلکہ ایک گرین نیو ڈیل۔ بعض سیاسی پنڈت وزیر اعظم کے آج کے انفراسٹرکچر پراجیکٹس کو حالیہ دنوں میں ٹوری حکومت اور خود وزیراعظم کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، وائٹ ہال مشینری میں ایک شیک آپ ہورہا ہے جو پہلے سے ہی کینٹ سیکرٹری مارک سیڈ ول کی رخصتگی کا اعلان دیکھ چکی ہے جبکہ آنے والے دنوں میں مزید تبدیلیوں کی توقع کی جارہی ہے۔یہاں چند مزید سوالات ابھرتے ہیں، کہ جو کمیونٹیز برطانیہ میں پہلے سے ہی نسبتاً زیادہ پسماندہ شمار کی جاتی ہیں جس طرح پاکستانی کشمیری اور بنگلہ دیشی ہیں اور کووڈ 19 کے ان پر اثرات بھی بے حد مرتب ہوئے ہیں ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے جن علاقوں میں ان کی اکثریت آباد ہیں ان کو اپ لفٹ کرنے کے لیے کیا اس نئے پراجیکٹ سے مدد رکھی جائے گی؟ پھر جو برطانیہ کے اندر جغرافیائی اعتبار سے جو معاشی عدم برابری پائی جاتی ہے امیر ساوتھ اور غریب نارتھ کا جو کانسپٹ ہے اور حقیقی معنوں میں گہرا تفاوت پایا جاتا ہے، جنوبی اور شمالی علاقوں کے معیار زندگی میں فرق ہے، اور پھر جو کمیونٹیز جس طرح کے پاکستانی کشمیری بنگالی ہیں ان کی اعلیٰ ملازمتوں، پالیسی فورمز میں نمایندگی بھی بے حد کم ہے کیا ان کی نمائندگی بڑھانے کے لئے ان نئے پراجیکٹس میں انڈر اچیورز اور انڈر ری پری زینٹید یعنی جن کی نمایندگی بہت کم ہے کو ترجیح دیتے ہوئے کلیدی مناصب کے حصول میں حکومت کے زعماء رہنمائی فراہم کریں گے؟ بورس جانسن اور ان کے مشیر ذاتی دلچسپی اگر لیں تو شاید معاملات پر پیش رفت ممکن ہو پائے، اور پھر یہ بھی سکروٹنی کی جائے کہ ان اقلیتی طبقات سے جو لوگ اہم پوزیشن کے لیے چنے جائیں وہ بہتر رہے گا کہ ذاتی اہلیت کی بنیاد پر آگے لائے جائیں سیاسی بنیادوں پر نہیں، ماضی کے بعض بلکہ لیبر پارٹی دور کے بعض تجربات بھی ہمارے سامنے ہیں موجودہ کنزرویٹیو حکومت کے ارباب اختیار ان کو بھی پیش نظر رکھیں تاکہ امداد حق دار افراد اور کمیونٹیز تک پہنچ سکے، یہ نہ ہو کہ لیبر پارٹی نے ری جنریشن کا پراجیکٹ لانچ کیا تھا تو جن جن جگہوں پر اہل نمایندگان تھے انہوں نے کمیونٹی گروپوں کی بہتر اور بروقت رہنمائی کی اور ان جگہوں کا انفراسٹرکچر بدل کر رکھ دیا گیا اور بدقسمتی سے بعض جگہوں پر جہاں پر نمایندگان درکار اہلیت اور استعداد سے کما حقہ تیار نہیں تھے وہاں پر امداد آنے کے باوجود مستحق وارڈوں تک نہ پہنچ سکی اور جس باعث کمیونٹی کی اکثریت آبادی والے بعض حلقے بدستور غربت اور افلاس سے دوچار ہیں، پسماندہ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں پر جرائم کی شرح بھیزیادہ نظر آئے گی، مکانات کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ، لیژر سہولیات کا فقدان ہوگا، اور بچوں کی تعلیم استعداد ناقابل قبول، ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں اگر خاص طور پر پاکستانی کشمیری کمیونٹی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کا اگر کہیں کوئی سوچ اور فکر ہے تو پھر اس متعلق کوئی بھی منصوبہ اہل افراد کے زریعے آگے بڑھایا جائے۔لوٹن کونسل کٹوتیوں کے اعلان پرپوز، تجویز کرنے پر پر مجبور ہو گئی ہے اور اوپر بالا تناظر میں معاملات کو دیکھا جائے تو یہ امر تعجب کا باعث ہی قرار دیا جائے گا کہ برطانیہ میں مرکزی سطح پر وزیراعظم انفراسٹرکچر کی بہتری کے اس طرح کے احسن اعلان کر رہے ہیں مگر دوسری طرف لوٹن بارو کونسل کے شارٹ فال کو پورا کرنے کی ضرورت شاید ابھی تک محسوس نہیں کی گئی۔کونسل کے ارباب اختیار مرکزی حکومت کے متعدد بار ایمرجنسی فنڈز کے لیے استدعا کر چکے ہیں مگر بقول اس کونسل کی لیڈر کے ان کی آواز سننے والوں کے کان گویا سماعت سے محروم ہیں، اور اس کونسل کی کوئی شنوائی نہیں ہو پارہی، کونسل بلاشبہ مشاورت کا عمل کرے گی مگر یہ بات واضح ہے کہ اگر مرکزی حکومت نے کسی مد سے لوٹن کی ہنگامی امداد جاری نہ کہ تو اس کونسل کو فرنٹ لائن سروسز کے متعلق بعض ناخوشگوار فیصلہ جات کو عملی جامہ پہنانا پڑ جائے گا جس کا نقد نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوٹن کے رہائشی بعض اہم کونسل خدمات سے محروم ہو کر رہ جائیں گے۔
تازہ ترین