• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر- لیسٹر
سید منور حسن بھی اس فانی دنیا کو چھوڑ کراپنے رب کے حضور پہنچ گے۔ سید مرحوم 1941 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک نظریاتی مملکت کے قیام کے لیے ہجرت کی اور پھر مرتے دم تک اس نظرئیے کی حفاظت کے کمر بستہ رہے۔ وہ ہجرت کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ وہ اس دور کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ کہ جب بلوائی ریل گاڑیوں پر حملے کرتے تھے۔ وہ اس ریل گاڑی کے مسافر تھے جوفسادات کی وجہ سے کئی دنوں کے وقفے کے بعد روانہ ہوئی ۔ آگے ایک اسٹیشن پر سکھوں نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی آہستہ کر دی تاکہ انہیں محسوس ہو کہ رک رہی ہے۔ ریل گاڑی کے مسافروں نے سکھوں کی کرپانیں دیکھ کر گاڑی میں رونا پیٹنا شروع کر دیا کیونکہ انہیں انجام صاف نظر آ رہا تھا۔ سکھوں نے سمجھا کہ ٹرین رک رہی ہے لیکن ڈرائیور نے نہایت ہوشیاری سے ٹرین کو روکنے کی بجائے تیز چلا دی۔ بچپن کا یہ واقعہ وہ عمر بھر نہیں بھولے۔ 1958 میں انہوں نے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ وہ اس تنظیم کے کراچی برانچ کے صدر تھے۔ اسی دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ کارکنوں نے انہیں سید مودودیؒ کی کتب مطالعہ کے لیے دیں۔ ان انقلاب آفرین کتب کے مطالعہ نے ان کی کایا پلٹ دی۔ انہوں نے این ایس ایف سے ناتا توڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ 1960 کا واقعہ ہے۔ چار سال بعد وہ جمعیت کے مرکزی ناظمِ اعلیٰ بن گے۔ انہی کے دورِ نظامت میں جمعیت کا مزاج عوامی بنا۔ طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے کئی تحریکیں چلی۔ طالب علمی دور کے اختتام پر انہوں نے جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی۔ دن رات ایک کر کے انہوں نے کراچی جماعت کو بہت فعال کر دیا تھا۔ 1977 کے الیکشن میں انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ لے کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ بد قسمتی سے اس الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کے باعث قومی اتحاد کے جماعتوں نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور حکومت کے خلاف بھر پور تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ قیدیوں سے جیلیں بھری جانے لگیں۔ اس وقت ایک ہفت روزے نے چند مشہور طالب علم رہنماوں کے فوٹو گراف کے ساتھ یہ سرخی لگائی کہ’جن کے دم سے ایوانوں میں رونقیں ہونا تھی آج ان کے دم سے جیلیں آباد ہیں‘۔ سید منور حسن کا فوٹو ٹاپ مڈل میں تھا۔ سید منور حسنؒ خطابت کے بے تاج بادشاہ تھے۔ اندازِ تکلم میں روانی ایسی تھی کہ آدمی دھنگ رہ جائے۔ وہ شوخی اور برجستہ گوئی سے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ لطیفہ گوئی کو بھی کام میں لاتے تھے۔ ایک دفعہ لاہور میں طلبہ ریلی میں خطاب کے فوراًبعد انہیں پی آئی اے کی فلائیٹ سے کراچی روانہ ہونا تھا۔ چونکہ فلائٹ کا وقت بہت کم تھا تو تقریر اس انداز سے شروع کرتے ہیں کہ پتا نہیں میں وقت کی قلت کے باعث فلائٹ پکڑ سکوں گا یا کہ نہیں۔ ادھر باکمال لوگوں نے میری فلائیٹ بک کی ہوئی ہے اور ادھر لاجواب سروس میری منتظر ہے۔ ان کی بات سن کرسارا مجمع قہقوں سے گونج اٹھا۔ کیونکہ پی آئی اے کے سلوگن باکمال لوگ لاجواب سروس کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں طلبہ قیادت کی غیر ذمہ داری کا گلہ بھی کر دیا اور اپنی مجبوری بھی واضح کردی۔ ان کے شستہ اور وجد آفرین انداز بیان سے سامعین پر سحر طاری ہو جایا کرتا تھا۔ ان کی خطابت سے متاثر ہو کر ایک بارعوامی نیشنل پارٹی کے رہنما خان عبدالولی خان نے کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی نے کیسے کیسے ہیرے چھپا رکھے ہوئے ہیں۔ سید منور حسنؒ جرات مندی کا استعارہ تھے۔ سامراج دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے تھے۔ وہ کہہ دیتے تھے۔ جب کراچی میں دہشت گردوں کا راج تھا اس وقت بھی وہ کھلے عام جماعتِ اسلامی کے پروگرام منعقد کرتے تھے۔ مشکل ترین حالات میں بھی وہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ وہ باکردار اور مدبر سیاستدان تھے۔ ان کی سیاست انسانیت کی فلاح کے لیے تھی۔ سید منور حسن مرحوم کئی دفعہ برطانیہ تشریف لائے۔ ہر وقت ان سے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ برطانیہ کے تمام بڑے شہروں میں ان کے پروگرام رکھے جاتے تھے۔ وہ جہد مسلسل کی داستان تھے۔ حق گوئی، سادگی، تقویٰ، قناعت، توکل اور درویشی میں اپنی مثال آپ تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خطائیں معاف فرمائے۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ اور ملکِ خداد پاکستان کو ان جیسے صاحبِ کردار سیاستدان عطا فرمائے۔ آمین۔
تازہ ترین