• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے سابق وزیراعظم مرحومہ بے نظیربھٹو تک ’مائنس ون فارمولا‘ کسی نہ کسی طرح سے ہماری تاریخ کا بنیادی حصہ رہاہے۔ جمہوریت کبھی اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوئی اور باربار پٹری سے اتر گئی۔ سیاستدانوں نے بھی تاریخ سے نہیں سیکھا اور دوبارہ انھوں نے یاتو غیر جمہوری کاموں کی حمایت کی یا صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ 

کیا اب ایک اور مائنس ون ہوگا۔ اگر یہ ہوا تو ایک سے زیادہ تین یا چار تک ہوگا، جیسا کہ کچھ ذرائع نے اشارہ دیاہے۔ اب یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا امتحان ہےکہ وہ کسی بھی ایسے ’فارمولا‘ کو رد کریں اور اتفاقِ رائے پرپہنچے کہ تبدیلی الیکشن کےذریعے ہی آنی چاہیئے یا آئینی طریقے سے بغیر کسی مداخلت کے آنی چاہیئے۔ 

وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف گزشتہ ہفتے مائنس ون کی کسی مبینہ سازش کے بارے میں اشارہ دیاتھا لیکن خبردار کیاکہ یہ آسان نہیں ہوگا اور وہ مزاحمت کریں گے۔ آج کے دن تک کوئی نہیں جانتا کون کون کمپنی گارڈن راولپنڈی، جسے اب لیاقت باغ کے نام سے جانا جاتاہے، میں لیاقت علی خان کےقتل میں ملوث تھا۔ ان کے فرضی قاتل سعید اکبر کو فوری طورپر گولی مار کر قتل کردیاگیا اور آج تک کسی کو کیس کے اصلی حقائق کا پتہ ہی نہیں ہے۔ 

پاکستان کی سیاسی تاریخ ’مائنس ون‘ فارمولا سے بھری ہو ئی ہے، نہ صرف ’مائنس ون‘ بلکہ بعض اوقات ’مائنس ٹو، مائنس تھری‘ اور اب کچھ باخبر ذرائع نے مائنس فور کی جانب اشارہ دیاہے۔ 

2013 کےکراچی آپریشن کےبعد مائنس تھری فارمولا زیربحث آیا بشمول مائنس بانی ایم کیوایم، مائنس آصف علی زرداری اور مائنس نواز شریف۔ 2015 میں آصف زرداری نے ایک بار نواز شریف کو خبردار کیاکہ اس آپریشن کے باعث بالآخر اُن کی حکومت چلی جائےگی۔ اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ کیوں پی ایم ایل(ن) کے اندر مائنس عمران فارمولا پر اختلافِ رائے ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے کسی ایسے فارمولا کو قبول کرلیا تو یہ مائنس ون تک محدود نہیں ہوگا۔ 

جو بات مائنس ون فارمولا کے مصنف اور پاکستانی سیاستدانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ کہ گزشتہ 72سالوں میں اس مائنس فارمولا نے صرف جموری عمل کو نقصان پہنچایا ہے جیسے سیاسی انجیئنرنگ اور الیکشن کو میجن کرنے کے فارمولا نے پہنچایاہے۔ 

پاکستانی سیاست اس کےبعدسےکبھی ٹھیک نہیں ہوسکی اوران کےقاتل کےبعدکی سیاسی افراتفری اور1951سے1958تک ایک بعدایک وزیراعظم کی تبدیلی جب اکتوبر 1958میں پہلا مارشلاء نافذکیاگیا۔جب قائداعظم کی بہن نےفیلڈمارشل ایوب خان کوصدارتی انتخابات میں چیلنج کیا توانھوں نےڈکٹیٹرکےخلاف ہرقسم کی مہمات کاسامنابطورطاقتورسیاسی آوازکیا۔ انھیں ایسی شکست دی گئی کہ کئی لوگوں کو مانناہےکہ انتخابات میں بہت زیادہ دھاندلی ہوئی۔

 انھوں نے مرکزی سیاست سےخودکوہی’مائنس‘کرلیااور ملک کے مستقبل کےسیاسی نظام کےبارےمیں پریشان تھیں۔سیاسی افراتفری کےنتیجےمیں ایوب خان نے 1968میں استعفیٰ دےدیا ،لیکن 1962 کےاپنےآئین کی خلاف ورزی کرتےہوئے اقتدارک کو سپیکر قومی اسمبلی کےحوالے نہیں کیا بلکہ جنرل یحیٰ خان کے حوالے کردیا جنھوں نےدوسرامارشل لاءنافذکردیالیکن 1970 میں ’ون مین ون ووٹ‘ کےتحت انتخابات کرانےکاوعدہ کیا۔ 

شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کی جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو کی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ لیکن اقتدارمنتقل نہیں ہوا جس کےنتیجےمیں بحران پیدا ہوا جس سے مشرقی پاکستان الگ ہوگیااور ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ لہذافاطمہ جناح بالکل غلط نہیں تھیں جب انھوں نے شسکت کے بعد ملک کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیاتھا اور سیاست کوخیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔

 1977میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو حکومت مخالف احتجاج پر فارغ کردیاگیا، اور تیسرا 5جولائی1977کومارشل لاءنافذکردیاگیا۔ ضیاء نے 90دن میں الیکشن کا وعدہ کیالیکن نہ صرف اسےغیرمعینہ مدت کیلئےملتوی کردیابلکہ مائنس بھٹو فارمولا بھی انھیں پھانسی دےکرنافذکردیا۔ پھر انھوں نے1973میں آئین میں آرٹیکل 58-2(بی) متعارف کرادیا تاکہ مائنس ون فارمولے کو آئینی تحفظ دیاجاسکے۔

 ان کے اپنے منتخب شدہ وزیراعظم مرحوم محمد خان جونیجو 28مئی 1988کو اس کے پہلے شکار بنے۔ انھیں ہمیشہ ایک صاٖف انسان کے طورپر یاد کیاجاتاہے جنھوں نے اہم اصلاحات اور شہری آزادیاں، آزادی اظہارِ رائے دینے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ ایسا کرنے کے باعث جو 58-بی کے بنانے والوں کو قابلِ قبول نہیں تھاکا شکار بن گئے۔ 

1988سے1996تک پی پی پی کی بے نظیر کی زیرقیادت دو حکومتیں اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایک حکومت کو اسی مائنس ون فارمولا کے تحت برطرف کردیاگیا۔

 لیکن ہربار وہ واپس آئے اور جب 1993 میں سپریم کورٹ نے شریف کی پہلی حکومت کو بحال کردیا اور اس برطرفی کو غیرقانونی قراردیا تو سابق صدر غلام اسحاق خان نے شریف کو وزیراعظم ماننے سے انکار کردیا۔ 

یہ بحران مائنس ٹو فارمولےیعنی صدر اور وزیراعظم کو ایک اور نگران حکومت اور تازہ الیکشن کی صورت میں نکلا۔ جب بے نظیر اقتدارمیں واپس آئیں تو وہ 24ماہ سے زیادہ نہیں ٹھر سکیں اور 1996 میں کرپشن الزامات پر مائنس ہوگئیں۔ اس بار ان کے اپنے صدر مرحوم فاروق لغاری نے انھیں 58-ٹو (بی) کے تحت برطرف کردیا۔ 

1997میں نواز شریف اقتدارمیں دوتہائی اکثریت کےساتھ واپس آئے۔ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے انھوں نے کئی سیاسی غلطیاں کیں۔ انھوں نے پہلے صدرلغاری سے نجات حاصل کی اور اپنا بندہ فاروق تارڑلے کرآئےپھر انھوں نے ایسی صورتحال پیدا کی جس کے باعث سابق آرمی چیف جنرل رفیق تارڑ کو مستعفی ہونا پڑا اور ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف نے لی۔ 

لیکن جب انھیں 12اکتوبر1999کو جنرل پرویز مشرف کوبرطرف کیاتوفوج نے بغاوت کردی اور ان کی حکومت کو برطرف کردیاگیا۔ مشرف نے براہِ راست مارشل لاءنہیں لگایاتھا بلکہ مائنس ٹو پر کام شروع کیاتھا یعنی مائنس بے نظیر اور نواز شریف۔ 

انھوں نے 2002میں اسی فارمولے کے تحت انتخابات کرائےجس میں خود کے منتخب شدہ دو گروپس پی ایم ایل(ق) اور پی پی پی (پیٹریاٹ) تشکیل دیئے گئے۔ مشرف اپنے اقتدارکوطول دینےکیلئےکافی آگئے نکل گئے اورمارچ 2007میں سپریم کورٹ سے جھگڑا مول لے لیا جب انھوں نےمعزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو مستعفیٰ ہونےپرمجبورکیا۔

تازہ ترین