• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبروں پرپھول اورسبزسبزٹہنیاں رکھنےکامسئلہ

تحریر :قاری عبدالرشید۔۔۔ اولڈھم
ان دنوں اموات کی شرح بہ نسبت دوسرے عرصے کے کافی زیادہ ہے۔مسلمانوں کے عام وخاص قبرستان جا رہے ہیں اور ایک اہم مسئلہ سامنے ہے۔خیال آیا کہ اس کو کالم میں مدلل لکھ دیا جائے۔ کوئی میت ایسی نہیں کہ جس کے بکس پر پھول نہ رکھے جاتے ہوں اور بعد تدفین وہ پھول قبر پر سجا دیئے جاتے ہیں۔اگر روکا جائے تو دین کی تعلیم نہ رکھنے والے تکرار اور دیندار دلائل دینا شروع کردیتے ہیں۔ان دلائل کا جواب کیا ہے؟اور اس مسئلہ کی حقیقت کیا ہے؟آپ سمجھ کر پڑھیں گے تو حقیقت معلوم ہوجائے گی۔قائلین لوگ، حضرت مولانارشید احمدگنگوھیؒ کا حوالہ دیتےہوئےکہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت علما دیوبند بھی قبروں پر پھول چڑھانے اور سبز ٹہنیاں رکھنے کے قائل ہیں۔ اس پر ان کے پاس الشیخ رشیداحمد گنگوھی رحمۃ اللہ کا موقف درج ذیل ھے،ابن عابدین (شامی) نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے، خشک جائز ہے۔ جیسا کہ البحر والدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سرسبز رہیں گے اللہ تعالٰی کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگی اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرسبز ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور جن دو قبر والوں کو عذاب ہورہا تھا ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کی تسبیح کی برکت سے ان کے عذاب میں کمی رہے گی، کیونکہ خشک کی تسبیح سے زیادہ کامل سرسبز کی تسبیح ہوتی ہے کہ ہری ٹہنی کی ایک خاص قسم کی زندگی ہے، اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سرسبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں، امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔قارئین کرام! اس کا جواب دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نےجن الفاظ میں دیا ہے وہ من و عن مندرجہ ذیل ہیں۔ یہ (عمل)عام صحابہ کرام سے ثابت نہیں صرف حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ وصیت ثابت ہوتی ہے اور تنہا ایک صحابی کا عمل پوری امت کے لیے تشریعی(شرعی) حکم نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ واقعہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ ہمارے لیے یہ عمل نہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ قبرستان میں جو خود رو گھاس اور پودے درخت ہوتے ہیں جب تک وہ سر سبزوشاداب رہتے ہیں تسبیح پڑھتے ہیں۔ جس سے مردوں کو انسیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن باالقصد پھول ڈالنا کسی روایت سے ثابت نہیں، یہی راجح اور مفتی بہ قول ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (دار الافتاء دار العلوم دیوبندفتوی نمبر 146536)اسی طرح اس کے ساتھ ملتا جلتا ایک دوسرا حوالہ خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کےنام سے بھی دیا جاتا ہےکہ دیکھیں اہل سنت والجماعت علمائے دیوبند بھی قبروں پر پھول چڑھانے کے قائل ہیں۔علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سے نقل کر کے کہا جاتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ درمختار میں ہےقبر پر درخت لگانا مستحب ہے اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی ہے(بحوالہ فیض الباری شرح صحیح بخاری) اس کا جواب بھی فتاوی دارلعلوم دیوبند میں جن الفاظ کے ساتھ دیا گیا ہے وہ من و عن مندرجہ ذیل ھیں۔اس(حوالہ)کی اصل حدیث سے اتنی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو "بذریعہ وحی" معلوم ھوگیا کہ ان دونوں قبر وں والوں کو عذاب دیا جارھا ھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت سے ایک ٹہنی توڑی اسے بیچ سے چیر کر دو حصے کیے، ایک حصہ ایک قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا اور یوں ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ دونوں ٹہنیاں ہری رہیں گی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔اس حدیث میں جو واقعہ گذرا یعنی عذاب دیا جانا، ٹہنی گاڑنا یہ سب بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا۔ ہمارے پاس وحی نہیں آتی،( کہ اپنے مدفون لوگوں کی قبور میں ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کا علم ھو سکے ) پھر(ان کے ) عذاب(قبر) میں تخفیف کی وجہ علماء محدثین نے یہ لکھی ھے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی خصوصیت سے ایسا ہوا۔ یہ حکم پوری امت کے لیے نہیں ہے، کیونکہ عام صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین )نے اس پر عمل نہیں کیا، اگر یہ حکم تشریعی ہوتا تو تمام صحابہ کرام (علیہم الرضوان ) اس پرعمل کرتےجو اقوال آپ نے نقل فرمائے ہیں وہ مرجوح قول ہیں، ہمارے احناف کے یہاں اس پر فتویٰ نہیں دیاجاتا۔واللہ تعالیٰ اعلم(دارالعلوم دیوبندفتوی نمبر 146536)امید ہے مسئلہ سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ 
تازہ ترین