خطیب پاکستان حضرت مولانااحتشام الحق تھانویؒ کی شخصیت گوناگوں کمالات اور اوصاف کے اعتبار سے ایک جامع اور ہمہ اوصاف شخصیت تھی، وہ ایک نامور جید ممتاز عالم دین اور بے مثال خطیب تھے، خاندانی اعتبار سے اور نسبی حیثیت سے بھی مولانا کو اعلیٰ درجہ کی شرافت حاصل تھی اور تلمذوارادت کے لحاظ سے بھی مولانا کا روحانی رشتہ اپنے زمانےکےمشاہیر علمائے کرام ومشائخ عظام سے قائم تھا۔ مولانا مرحوم نسبی طورپر قصبہ کیرانہ ضلع مظفر نگر بھارت کے صدیقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ والدہ ماجدہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بہن تھیں اور وہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن عثمانی دیوبندی قدس سرہ سے بیعت تھیں۔ آپ کے والد ماجد کا نام نامی مولانا ظہور الحق ؒ تھا جن کو حضرت حکیم الامت تھانویؒ سے تعلق تلمذ کے ساتھ شیخ المشائخ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ سے شرف بیعت حاصل تھی، مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی شادی حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے حقیقی بھائی جناب منشی اکبر علی صاحب کی حقیقی نواسی سے تھانہ بھون میں ہی ہوئی تھی اور مولانا نے بچپن ہی سے تھانہ بھون کو اپنا وطن بنانے کا عزم کر لیا تھا، تھانہ بھون سے گونا گوں روحانی اور جسمانی رشتوں کی وجہ سے مولانا کا مقام بہت بلند ہوا اور اپنی اس محبوب نسبت سے آپ بہت مشہور ہوئے۔
آپ نے میرٹھ اور سہارنپور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیو بند میں آٹھ سال تک قیام کر کے وہاںکے اساتذہ کرام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، حضرت مولانا اعزاز علی امروہیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ وغیرہ مشہور اہل فضل وکمال اور اکابر امت سے علم حدیث وتفسیر وفقہ اور دوسرے تمام علوم مروجہ کی درس نظامی کے مطابق تکمیل کے بعد اعلیٰ درجہ میں سند الفراغ حاصل کی ۔مولانا مرحوم عام خطیبوں اور مقررین کی طرح ایک مقرر وخطیب نہیں تھے۔ بلکہ دارالعلوم دیوبند کے سند یافتہ ممتاز فاضل اور علوم دینیہ میں مکمل مہارت اور فقاہت کے حامل اور ایک حق گو اور جید عالم دین تھے۔ حضرت حکیم الامت تھانویؒ قدس سرہ آپ کے حقیقی ماموں بھی تھے اور روحانی مربی بھی تھے۔ مولانا نے اپنا اصلاحی اور تربیت روحانی کا رشتہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ سے ہی قائم کیا تھا، پھر شیخ الاسلام حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی طرف سے تکمیل سلوک کے بعد مجاز بیعت ہوئے۔ اس طرح مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی بیعت وارادت کے رشتے کے علاوہ سیاسی مسلک بھی حضرت حکیم الامت تھانویؒ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے سیاسی مسلک ونظریات کے ہمنوا تھے اور دو قومی نظریہ وتحریک پاکستان کے بڑے سختی کے ساتھ حامی تھے۔مولانا مرحوم کی پوری سیاسی زندگی دو قومی نظریہ اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی قسم کی مفاہمت اور رواداری کے قائل نہیں تھے مولانا کو اپنے نظریئے کی صداقت پر سختی سے اصرار تھا۔ ہر اس شخص اور جماعت سے مولانا کو سخت اختلاف رہا جس کے بارے میں اس نظریہ کی مخالفت کا ادنیٰ شبہ بھی ان کو ہو گیا۔ پھر اس اظہار اختلاف میں بھی مولانا مرحوم نے کبھی کسی کی رعایت نہیں کی اوراپنے پرائے کا بھی کوئی امتیاز روا نہ رکھا۔
جس موقف کو سچ سمجھا بلاخوف ’’لومتہ لائم‘‘ اس کے اعلانیہ اور اور برملا اظہار کو مولانا نے اپنا شعار بنائے رکھا۔ مولانا احتشام الحق تھانویؒ ابتدا سے ہی حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے نظریہ پاکستان سے وابستہ رہے اور پاکستان کے قیام سے پہلے ہی حضرت حکیم الامت کی قائم کردہ مجلس دعوۃ الحق کے عظیم مبلغ کی حیثیت سے دہلی میں تحریک پاکستان کے عمائدین اور زعماء کو پاکستان کے اصل مقصد قیام اور اس کی روحانی نظام اسلام کی طرف متوجہ کرتے رہے پھر قیام پاکستا ن کے بعد مولانا مرحوم کو شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی معیت کا شرف حاصل رہا اور دستور اسلامی کی مہم میں حضرت علامہ عثمانیؒ کے معتمد خصوصی کے طور پر کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ دینی مدارس قائم کئے، خصوصاً پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کی طرز پر ایک مرکزی دارالعلوم ٹنڈوالہ یار کا قیام آپ ہی کی سعی وکاوش سے عمل میں آیا اور آپ ہی اس دارالعلوم کے بانی اور مہتمم اول تھے۔ آج ہزاروں علماء وفضلاء اسی دارالعلوم کے فارغ التحصیل ہیں اور دینی وعلمی خدمات میں مصروف ہیں۔ آپ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالم اسلام کے مایہ ناز خطیب تھے اور مجمع عام میں تقریر وخطابت کی جو بے نظیر صلاحیت وقابلیت اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو عطاء فرمائی تھی اس کا مشاہدہ تو عام جلسوں اجلاسوں میں ہر خاص وعام کو ہوتا رہتا تھا مگر خاص مجلسوں اور محفلوں میں خاص طورپر اونچی سوسائٹیوں میں مولانا کا انداز گفتگووطرز بیان قابل دید ہوتا تھا، مولانا اپنے مدعا کو ایسے طریقے سے پیش کرتےتھے کہ بڑے سے بڑے معاندومخالف کو بھی سوائے سکوت کے کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ ایسی مجالس میں مولانا کی ذہانت، حاضر جوابی، برجستگی اور نکتہ آفرینی کا خوب خوب ظہور ہوتا تھا پھر مخاطب کے مزاج ومذاق کی رعایت کے ساتھ اپنے موقف کی پختگی میں کوئی فرق نہیں آنے دیتے تھے تمام گفتگو میں چہرےپر مسکراہٹ اور بشاشت اور اول تا آخر یکساں طورپر قائم رہتی تھی غرض یہ کہ مولانا مرحوم اپنے مخصوص طرز گفتگو اور ملکہ تفہیم کی بدولت بھی تمام علمائے کرام کی جماعت میں امتیاز شان کے حامل تھے اور دستور اسلام اور اسی طرح کے دوسرے دینی مسائل کے سلسلے میں منعقد ہونے والی اونچے طبقوں کی مجلسوں میں مولانا مرحوم نے ہمیشہ علمائے حق کے ترجمان کی حیثیت سے کام انجام دیا اور علما ومشائخ کے وفود کے لئے رابطہ کا فرض ادا کرتے رہے۔
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، علامہ ظفر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد حسن امرتسریؒ، مولانا محمد شفیعؒ،مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا رسول خان ہزارویؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مولانا اطہر علیؒ اور مفتی جمیل احمد تھانویؒ وغیرہ تمام اکابر علمائےکرام نے نظام اسلام کے لئے اپنی کوششوں میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ پر بھرپور اعتماد فرمایااور نظام اسلام کی تحریک سے وابستگی رکھنے والے سب اکابر وبزرگوں نے مولانا مرحوم کی مساعی جمیلہ اور انتھک کوششوں کو ہمیشہ قدروعظمت کی نگاہ سے دیکھا۔بہرحال مولانا احتشام الحق تھانویؒ مرحوم نے پوری زندگی دینی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کی ابتدا سے استحکام پاکستان اور نظام اسلام کےلئے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں جنہیں تاریخ پاکستان کبھی فراموش نہیں کرسکتی، اللہ تعالیٰ مولانا کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔