• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارچ ،جی الانہ یعنی غلام علی الانہ صاحب کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ پورا مارچ میں سوچتا رہا کہ قائداعظم کے اس دوست کی یاد میں ضرور لکھا جائے لیکن کوتاہی ہوئی۔ آج کی نسل کے بے شمار لوگوں کو شاید جی الانہ کے نام سے بھی واقفیت نہ ہو لیکن جو لوگ قائد اعظم کو صحیح طور پر جاننا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جی الانہ کی قائد اعظم پر کتاب ”قائد اعظم… ایک قوم کی سرگزشت “ کا مطالعہ ضرور کریں۔ جی الانہ کی پیدائش یوں تو 1906ء میں ہوئی یعنی اس سال کہ جب ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام نواب سر سلیم اللہ کی حویلی پر ہوا اور یوں جی الانہ عمر میں قائد اعظم سے چھوٹے تھے لیکن ان کی قائد اعظم سے قربت کے باعث اکثر مورخین ان کو قائد اعظم کے دوست کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔ 40 سے زائد کتب کے یہ مصنف اپنی تحقیق اور سکالر شپ کی بدولت ادبی و تحقیقی حلقوں میں ایک بڑے آدمی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنا کچھ وقت نکال کر جی الانہ کی کتاب سے چند اقتباسات کا مطالعہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ جس بحث میں ہم آج کل الجھے ہوئے ہیں کہ ”نظریہ پاکستان کی اساس کیا ہے“؟ اور قائد اعظم پاکستان کو کیا دیکھنا چاہتے تھے اس پر کچھ روشنی ڈالی جا سکے۔
جی الانہ صاحب کی کتاب سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ قائد اعظم جمہوری پروسس پر یقین رکھتے تھے یعنی ایک ایسی طرز حکومت پر جس میں لوگوں کے چنے ہوئے نمائندے اسمبلیوں میں آئیں اور ملک کے لئے قوانین بنائیں۔ انہیں نہ صرف یہ کہ اس طرح کے طرز انتخاب پر یقین تھا بلکہ وہ خود بھی اس سسٹم کے تحت انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں انہوں نے کبھی اس طرزانتخاب کو غلط نہیں کہا اور نہ ہی اس سے خوف کھایا۔ اسی طرز انتخاب کو مضبوط کرنے کے لئے جناح صاحب نے انتخابی عمل کو مضبوط بنانے پر زور دیا اور اس کے لئے انہوں نے خواہش کی کہ سیاستدان عوامی رائے کو انسانی اعلیٰ اقدار کے حق میں موافق کرنے کے لئے کوشش کریں اور بعد میں جب وہ منتخب ہو جائیں تو اسمبلیوں میں انہی اعلیٰ اقدار کے لئے اور اس کے تحت بہترین حکومت سازی کیلئے کوشش کریں۔ اس مقصد کے لئے قائد اعظم نے اخبارات و جرائد اور دوسرے ماس میڈیا کے رول کو بے حد اہمیت دی اور پایا کہ یہ تمام عوامی رائے کو بیدار کرنے کے لئے اپنا قا ئدانہ فرض انجام دیں۔ قائداعظم نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ بعد میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کے ممبران کس طرح ان کے اس قول کو چھوڑ کر ذاتی مفادات کی خاطر اکٹھے ہو جائیں گے۔ اعلیٰ اقدار پر مبنی حکومتیں بنانے کی بجائے انہیں اس کی فکر دامن گیر ہو گی کہ انہیں گلیاں پکی کرانے اور سڑکیں ٹھیک کرانے کے نام پر کتنے ٹھیکے کے لائسنس کا اختیار ہو گا جسے بیچ کر وہ اپنا کمیشن کھرا کر سکیں۔
جی الانہ کی کتاب کو پڑھ کر ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں اپنے اعلیٰ قول کو حاصل کرنے کے لئے بہر طور جمہوری طرز حکومت ہی کو فروغ دینا ہو گا ۔ یہ جو آج کل کے بعض سروے بتاتے ہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت اس وقت جمہوری طرز حکومت سے نالاں ہے اور کسی اور سسٹم کو رائج دیکھنا چاہتی ہے ان کو بھی چاہئے کہ جی الانہ صاحب کی اس کتاب کو بغور پڑھیں اور جانیں کہ قائد اعظم نے اس طرز حکومت کو رائج کرنے کے لئے کتنی قربانیاں دیں۔ انہیں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن ان کا ایمان اس طرز حکومت کے بارے میں متزلزل نہیں ہوا۔ یہ میں اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کہ خود میں نے بھی اوپر اس طرز انتخاب سے سلکیٹ ہو کر آئے کئی لوگوں کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ وہ حرص کے غلام ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم اس طرز انتخاب ہی کو غلط قرار دے دیں۔
ایک اور بحث جو اس وقت قائد اعظم کی 11/اگست کی تقریر کے حوالے سے ہے اس کو بھی اگر جی الانہ صاحب کی کتاب کے مطابق دیکھیں تو بقول ان کے :
”دستور ساز اسمبلی نے سب سے پہلے قائد اعظم کو اتفاق رائے سے اپنا صدر منتخب کیا۔ اس پر اسمبلی کا ایوان تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس موقع پر ایک عجیب بات ہوئی۔ ہم لوگوں نے جو گیلری میں تھے، پارلیمانی روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے خود بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ قائد اعظم خطبہ صدارت پڑھنے اٹھے تو ایوان میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ انہوں نے ممبروں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا کہ ”دستور ساز اسمبلی کے سامنے دو اہم کام ہیں۔ ایک یہ کہ اسے پاکستان کا آئندہ دستور مرتب کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ اسمبلی پاکستان کی وفاقی مقننہ کی حیثیت سے ایک مکمل خود مختار ادارہ ہو گی“۔ پاکستان کی تشکیل کے متعلق حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ”اب سے پہلے دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی انقلاب رونما نہیں ہوا ہے“ انہوں نے رشوت ستانی اور بدعنوانی کی مذمت کی جس کی وجہ سے ہندوستان کو نقصان اٹھانا پڑا تھا اور فرمایا ”رشوت ستانی درحقیقت ایک لعنت ہے ہمیں اس لعنت کو سختی سے ختم کرنا ہے ایک اور لعنت چور بازاری ہے“ انہوں نے اقرباپروری اور خویش نوازی کو قابل نفرت قرار دیا اور فرمایا ”اس قابل نفرت شے کے وجود کو تباہ کر دینا ضروری ہے، میں کسی قسم کی اقرباپروری، فرقہ واریت یا کسی دباؤ کو برداشت نہیں کروں گا“ مذہبی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ” آپ سب آزاد ہیں، آپ کو مملکت پاکستان میں اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے“ انہوں نے خلوص دل کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ کسی کے خلاف کوئی کدورت نہیں رکھیں گے اور نہ کسی کے ساتھ جانبداری برتیں گے۔ انہوں نے کہا ”میں ہمیشہ حق و انصاف کے اصولوں کے مطابق اپنا فرض انجام دوں گا“۔
قائداعظم نے ہر فرقے کے لئے اس ملک کو آزاد بنایا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی اگر سمجھیں تو ہمیں اس کے مطابق مل جل کر رہنا ہے۔ ایک دوسرے کو سانس لینے اور پھلنے پھولنے کی آزادی دینی چاہئے۔ یہ ہو گا تو ہم ترقی کریں گے وگرنہ زوال ہی زوال ہے۔
تازہ ترین