• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ جو ابھی تک یورپی یونین سے مکمل طور پر نکلنے کے لیے عبوری دور سے گزررہا تھا اور یہ 31 دسمبر 2020کو ختم ہو جائے گا، برطانیہ نے اپنا پاسپورٹ اور اس کے رنگ میں بھی تبدیلی کی ہے اب نئے پاسپورٹ میں بہترین سکیورٹی فیچرز کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ کا رنگ گہرا نیلا ہوگا جبکہ اس پر سے یورپی یونین کے الفاظ بھی حذف کر دیے گئے ہیں، برٹش پاسپورٹ سے یورپی یونین کا لیبل ہٹانے کا فیصلہ گزشتہ سال مارچ میں یورپی یونین سے متوقع انخلا کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ برطانیہ نے 32 سال بعد ایک دفعہ پھر گہرے نیلے رنگ کا پاسپورٹ جاری کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے صحافتی اداروں کی بندش اور اظہار رائے پر پابندیوں کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران ہمارے ایک صحافی دوست شوکت ڈار نے اپنا نیا برطانوی پاسپورٹ ہمیں دکھاتے ہوئے کہا یہ میرا آخری پاسپورٹ ہے، میں نے ڈاکٹر صاحب سے استفسار کیا کہ آخری کیوں؟ تو انہوں نے کہا یہ پاسپورٹ دس سال کے لیے بنا ہے اور زندگی کے شاید اتنے ہی سال میرے پاس بچے ہیں، شوکت ڈار نے یقیناً یہ بات ازراہِ تفنن کہی تھی لیکن ان کی اس بات میں حقیقت کے ساتھ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور دکھ بھی شامل ہیں۔ ان دکھوں میں وطن چھوڑنے اور بے وطن ہونے کے دکھ، اولاد کے دکھ، ان کی شادیوں کے دکھ، عام طور پر نوجوانی میں ہی لوگ ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں آباد ہوتے ہیں سال کے سال گھڑیوں کی صورت گزر جاتے ہیں انواع و اقسام کے مسائل میں پتا ہی نہیں چلتا کب جوانی بڑھاپے تک اور بڑھاپا موت کی دہلیز تک لے آتا ہے اور سہانے اور خوشحالی کے خواب دیکھ کر بے وطن ہونے والا پیوند خاک ہو جاتا ہے۔

پچھلے چند مہینوں میں جب سے کورونا وائرس پھیلا ہے برطانیہ سمیت پوری دنیا میں لوگوں کو سفری مشکلات کا سامنا ہے لیکن پاکستانیوں کو اس لئے بھی زیادہ مسائل ہیں کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت کےقومی ایئرلائنز پی آئی اے کے پائلٹس سے متعلق بیان نے برطانیہ اور یورپی اور کئی عرب ممالک میں بھی فلائٹس بند کروا دیں۔ سعودی عرب میں مقیم میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ یہاں حج و عمرہ پر تو پابندی لگی لیکن دیگر نظام زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت 15 لاکھ سے زیادہ پاکستانی پروفیشنلز اور مزدور مقیم ہیں لیکن لاک ڈاؤن اور کرفیو کے دوران پاکستانی سفارتخانہ اور قونصلیٹ کسی طرح بھی متاثرین کی مدد نہیں کر رہا۔ یہاں زیادہ تر پاکستانی تعمیراتی صنعت سے وابستہ آزاد ویزے پر کام کرتے ہیں (آزاد ویزے کا مطلب کفیل کی اجازت سے اپنی مرضی کا کام کرکے کفیل کو ماہانہ آمدنی دینا ہے) یہ کام سعودی عرب میں گو کہ غیر قانونی لیکن اس طریقے سے جہاں غیر ملکی کماتے ہیں وہاں سعودی شہری بھی ان سے کم از کم 500 ریال فی کس ماہانہ وصول کرتے ہیں، سعودی عرب ہو یا امارات زیادہ تر پاکستانی رقم بچانے کے لیے آٹھ دس لوگ ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں ۔ برطانیہ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں گو کہ کفیل وغیرہ کے معاملات نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود دہائیوں سے رہنے والوں کے لیے بالعموم اور نئے آنے والوں کے لیے بالخصوص حالات ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔

’آخری پاسپورٹ‘ اسی قسم کے حالات کے ضمن میں ایک نوحہ ہے کہ ایک شخص نئے ملک میں آکر پہلے کئی سال تک ملازمت، امیگریشن اور دیگر کئی قسم کے معاملات سے نبرد آزما رہتا ہے، پھر شادی اور بچوں کے مسائل،گھر خریدنے اور مارگیج سے تھوڑی فراغت ملتی ہے تو عمر وصحت کے حالات دگرگوں ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ چالیس پچاس سال یہاں رہ کر بھی خود کو پردیسی ہی سمجھتے ہیں، اگر پاکستان میں کوئی اپنا گھر بنا بھی لے تو اس پر مافیا یا اپنے گھر میں سے ہی کوئی قبضہ کر لیتا ہے یا زندگی اسے مہلت ہی نہیں دیتی کہ وہ اپنا آخری وقت واپس پاکستان جا کر گزارے جیسے میاں محمد بخش سیف الملوک میں لکھتے ہیں کہ

آسے پاسے عمر گزاری، جھلے خار ہزاراں

مالی باغ نہ ویکھن دیندا آئیاں جدوں بہاراں

ان تمام مسائل و مشکلات کے ساتھ ایک اور المیہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کا آبائی ملک پاکستان بھی انہیں’’اے ٹی ایم‘‘  سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا، حکومت ہو یا کوئی دوسرا چندہ مختلف حیلے بہانوں سے انہیں اوورسیز پاکستانیوں سے اکٹھا کیا اور پھر خورد برد کر لیا جاتا ہے۔ اور ریاست جو ’’ماں باپ‘‘ کی طرح ہوتی ہے یہ پاکستان پہنچنے پر ایئرپورٹ پر ان نام کے سفیروں کا کیا حشر کرتی ہے یہ ہم سب کو علم ہے۔ ویسے آخری پاسپورٹ کے ضمن میں یہ واقعہ دلچسپ ہے کہ فرعون کا بھی پہلا اور آخری پاسپورٹ 1974ءمیں بنا تھا وہ دنیا کا واحد شخص ہے جس کے مرنے کے تین ہزار سال بعد اس کا پاسپورٹ بنا کیونکہ فرعون کی ممی کو محفوظ رکھنے کے لئے فرانس میں کچھ مرمت ہونا تھی اور بنا پاسپورٹ فرانس میں ممی نہیں لے جائی جا سکتی تھی اس لیے فرعون کا پاسپورٹ بنایا گیا اور فرانس پہنچنے اور علاج یا مرمت کے دوران ممی کو پورا صدارتی پروٹوکول بھی دیا گیا !!

تازہ ترین