لمبی تان کے سونے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اچانک سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے ہیں، وہ بھی آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے سنگ۔ دوسری جانب عین اسی موقع پر سابق عبوری وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی یاد کی انگڑائی دیکھئے کہ انہیں مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا یاد آگیا اور ان یادوں کے دریچے سے وہ یہ بات منظرِ عام پر لائے کہ مولانا کا اکتوبر 2019کا دھرنا زخموں اور سسکیوں کی انجمن بن جاتا اگر چوہدری برادران آگے بڑھ کر خانِ اعظم کو درست مشورہ نہ دیتے۔
دھرنے پر دھاوا بولنے کے تناظر میں اور ایک لاش مل جانے کے سبب حکومتی تیا پانچہ بھی ہو سکتا تھا۔ بہرحال بگاڑ اور بناؤ کے اس سیاسی نشیب و فراز میں چوہدری برادران کو بارہا یہ موقع ملا کہ وہ ہک، ہولڈ اور ہٹ پالیسی انجوائے کر سکیں۔
شدید ناکامی میں بھی اُن کا مفاہمتی عمل مزاحمتی عمل پر غالب رہا، ان کے ہاں کبھی اسٹریٹ پاور کا تصور تو رہا نہیں بس وہ جوڑ توڑ کے شہنشاہ ہمیشہ رہے، دشمنی پر آئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حصہ دار تک ٹھہرے، دوستی پر آئے تو زرداری حکومت میں ڈپٹی وزارتِ عظمیٰ کے مالک تک قرار پائے، گویا، دوست، ڈپٹی کا عہدہ تراشنے پر مجبور ہوئے۔ طاقتورں سے ان کاچولی دامن کا ساتھ رہا۔
چوہدری برادران کی سیاست کا یہ پہلو بڑا ہی دلچسپ ہے کہ پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے۔ عہدِ حاضر کے آٹا چینی بحرانوں، کورونا و ٹڈی دَل وباؤں، پائلٹس و سیاسی جعلی ڈگریوں اور وفاق و سندھ سیاسی محاذ میں مولانا و زرداری و بلاول ملاقات اور چوہدری بیانیہ، پسِ پشت رکھنا ممکن نہیں۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ سیاسی منظر نامہ میں ایک گونج یہ بھی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جو سندھ حکومت وفاقی وزیر علی زیدی کے ری ایکشن میں سامنے لائی وہ وفاق کے نزدیک نامکمل تاہم زیدی کی پُراسرار طور پر اس کی دہلیز پر آنے والی رپورٹ مکمل۔
ارے ذوالفقار مرزا کے حوالے سے بھی کوئی جواب، اے اہلِ کرم؟ بہرحال، لگتا ہے حقیقت میں یہ سب سیاست نامے ہیں جو آنے والے دنوں کی سیاست کے بنیادی پتھر بناکر چنے جائیں گے اور عین ممکن ہے سیاست کی انارکلی کو انہی پتھروں کی دیواروں میں ہی چنا جائے مگر بیک ڈور ڈپلومیسی کوئی رنگ جما جائے۔
خیر، ہم اکثر یہ عرض کرتے ہیں، یہ سوال ایک دفعہ پہلے بھی کر چکے کہ عوامی دوستوں کے نزدیک سیاست وہ حسیں مہ جبیں حقیقت ہے جس کی کشش اور سنگت کے سبب ہی اِن کے وقار کی بقا ہے۔
وہ اس وجۂ وقار پر اپنے تن من دھن کی بازی بھی لگا دیں گے مگر افسوس کہ جمہوری و سیاسی خود مختاری و خود انحصاری و آزادی کا نہیں سوچیں گے! گویا لیڈر ہو کہ کارکن ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔ سیاست بچانے سے سیاست لڑانے تک اور سیاست کھیلنے سے سیاست لپیٹنے تک کون ہے جو آپے سے باہر نہیں ہے؟
ان دنوں، حالیہ غنچہ سیاست سے جانے کوئی جمہوریت کھل کر گلِ شاداب بنے نہ بنے لیکن سیاست دان گر ملک و ملت پر رحم کھائیں اور ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیں، اس حکومت کے پانچ برس مکمل ہونے دیں تو عنایت ہوگی تاکہ محبت کی دیوانگی اور قوت کے ترنگ کےسب راز کھلیں، اسی میں بہتری ہے۔ باقی اپوزیشن کو کس نے کہا کہ دقیانوس محل بنائیں۔ جاگتے رہیں اور جگاتے رہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن اور زرداری ملاقات کی جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی پالیسی کے تحفظ کا اعادہ کیا جو دانشمندانہ اقدام ہے۔ دوسرا، ان لوگوں کو شرمندگی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو لیکن ضمیر کی آنکھیں تومزید جھکی ہوں گی گر ضمیر زندہ ہوا کہ زرداری صاحب تو سیاسی طور پر ہشاش بشاش ہیں۔ ہم سیدھی پٹی پڑھ لیں یا الٹی، ہر صورت میں زرداری صاحب کی مفاہمت، جمہوری خدمات، پارلیمانی روایات اور وسیع القلبی کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے۔
اسی طرح نواز شریف کی ترقیات، چوہدری شجاعت کی تسلیمات اور مولانا فضل الرحمٰن کی تعلیمات کو بھی پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا ورنہ جمہوریت کی بساط لپٹی ملے گی۔ وہ حکومتی عمائدین جو پارلیمانی سنجیدہ روایات کو تقویت بخشنے کے درپے رہتے ہیں انہیں اپنی وفاؤں کا حکومت کو اس طرح ثبوت دینا ہوگا کہ وہ مراد سعید جیسی منفی شعلہ بیانی اور سرور خان جیسی مشکوک غلط بیانی کو ختم کرنے میں آئندہ اپنا کردار ادا کریں۔
اپوزیشن بھی پارلیمانی گفتگوؤں کو نتیجہ خیز بنائے۔ عالمی سطح تک پائلٹس کے حوالے سے جو جگ ہنسائی ہوئی، وہ تو ہو گئی مگر اب عالم یہ ہے کہ سات معتبر ممالک نے ہمارے 95فیصد پائلٹس کے لائسنس معاملات کو درست قرار دے دیا ہے۔
باقی بھی جلد سرخرو ہوں گے تاہم حکومتی عاقبت نااندیش گندے کپڑے پارلیمنٹ میں دھونے سے جانے باز کیوں نہ آئے؟ اور حکومت کی خاطر بحث برائے بحث کرنے والوں نے ابھی کچھ سیکھا ہے یا نہیں؟ اجی سب سیاست سیاست ضرور کھیلیں مگر ملک و ملت اور پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریلوے سے تو سیاست نہ کھیلی جائے۔
جہاں تک زرداری و مولانا ملاقات کا تعلق ہے اس میں مجموعی طور پر ایک بات ذہن میں رکھنے والی یہ ہے کہ موجودہ حکومت 18ویں ترمیم کو چھیڑے گی تو تند نہیں تانی بگڑ جائے گی۔ این ایف سی ایوارڈ پر ضرب آئی تو سب بلوچستانی حلیف، حریف نظر آئیں گے۔ تعصبات اپنی جگہ 18ویں ترمیم کی دفعہ 10-اے ہی کی شمولیت کو دیکھ لیں وہ رائٹ ٹو فئیر ٹرائل یعنی قانون کی بالادستی و عملداری اور سول رائٹس ہی کی بات کرتی ہے جو دراصل ’’نیب پسندوں‘‘ کے راستے کی رکاوٹ ہے۔
جہاں انسانی حقوق اور انصاف کی فراوانی ہو وہاں وبائیں آئیں یا سزائیں وہ اقوام متاثر تو ہو سکتی ہیں مگر قحط الرجال اور زوال کا شکار نہیں۔ اس وقت تیل دیکھئے اور تیل کی دھار۔ زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، شجاعت بازگشت سے استفادہ ہونا چاہیے، خان اِن ٹربل، ہونا ابھی جمہوری نقصان ہے!