• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عکاسی: اسرائیل انصاری

اگر آپ کراچی میں ضیاء الدّین اسپتال سے کریم آباد کی طرف جاتے ہوئے گجر نالہ پار کرنے کے بعد بائیں جانب پہلے کَٹ پر مُڑیں، تو کچھ ہی فاصلے پر’’ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیزز‘‘ کی وسیع و عریض عمارت آپ کے سامنے ہوگی۔ یہ عمارت، 2010ء میں رُکن قومی اسمبلی، محمّد سفیان کے خصوصی فنڈز سے تعمیر کی گئی، تاہم دو برس تک ویران پڑی رہی۔2012ء میں اسے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن( کے ایم سی) کے حوالے کردیا گیا۔

بعدازاں، کے ایم سی نے اسے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج( کے ایم ڈی سی) کی نگرانی میں دے دیا، مگر اس کے باوجود 2016ء تک اس عمارت میں کوئی کام شروع نہ کیا جاسکا۔ 2016ء میں گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد کے ایک خصوصی پیکیج کے تحت دیگر اداروں کے ساتھ اسے بھی کچھ سامان فراہم کیا گیا۔ سامان تو آگیا، مگر کے ایم سی کے پاس اسپتال چلانے کے لیے افرادی قوّت تھی اور نہ ہی بجٹ،یوں دو سال مزید گزر گئے۔

پھراسپتال کو کسی فلاحی ادارے کے حوالے کرنے پر غور شروع ہوا اور’’ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیزز ایسوسی ایشن‘‘ کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا، جس کے تحت اسپتال چلانے کی ذمّے داری این جی اوز کے سُپرد کردی گئی، جب کہ کے ایم سی نے بجلی، گیس، ٹیلی فون اور ڈیزل کے بلز ادا کرنے کی ذمّے داری خود لے لی۔ پہلے اس اسپتال کا نام’’ نذیر حسین میموریل کڈنی سینٹر‘‘ تھا، جسے رواں برس تبدیل کرکے’’ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیزز‘‘کر دیا گیا ہے۔

یہ ادارہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ایک بہترین مثال ہے۔ 4 نومبر 2017ء کو ایک مشین کے ساتھ کام کا آغاز ہوا اور آج اس اسپتال میں ڈائی لائسسز کی 35 مشینز موجود ہیں ۔تین شفٹس میں یومیہ ایک سو کے لگ بھگ مریضوں کا ڈائی لائسسز کیا جارہا ہے۔ نیز، گُردے کے تمام امراض کے حوالے سے صبح 9 سے شام 5 بجے تک او پی ڈی کی سہولت بھی موجود ہے۔ ہمارا پچھلے دنوں وہاں جانا ہوا، تو اسپتال کے مختلف شعبہ جات دیکھنے کا موقع ملا، جب کہ ایم ایس، بورڈ ارکان اور ڈاکٹرز سے بھی خدمات اور مسائل کے حوالے سے مفصّل بات چیت ہوئی۔

ڈاکٹر سعید اختر، جو اسپتال کے سابق سربراہ اور بورڈ ممبر ہیں، ہمیں مختلف شعبہ جات کے دورے کے دَوران سب سے پہلے ایک ایسے کمرے میں لے گئے، جہاں’’لیتھوٹریپسی‘‘ مشین رکھی تھی۔ یہ مشین شعاؤں کے ذریعے پتھری نکالنے کے کام آتی ہے۔اُنھوں نے بتایا’’ پہلے پتھری نکالنا ایک پیچیدہ عمل تصوّر کیا جاتا تھا،تاہم اب اِس مشین کے ذریعے کام اس قدر آسان ہوگیا ہے کہ مریض آدھ، ایک گھنٹے بعد اپنے پیروں پر چلتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔اِس طرح کی مشین صرف تین چار بڑے اسپتالوں میں ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیا فیس لیتے ہوں گے؟لیکن یہاں یہ سہولت مفت دست یاب ہے۔‘‘ 

اِس ضمن میں پوچھے گئے مختلف سوالات کے جواب میں اسپتال کے ایم ایس اور معروف نیفرولوجسٹ ، ڈاکٹر خرّم دانیال نے بتایا’’شعاؤں کے ذریعے پتھری توڑنے سے انسانی جسم کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ الٹرا ساؤنڈ جیسی شعائیں ہوتی ہیں، البتہ ایکسرے اور سی ٹی اسکین کی شعائیں انسانی جسم کے لیے مضر ہیں۔ اگر پتھری کا سائز چھوٹا ہو، تو اُسے لیزر کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اگر پتھری بڑی ہو یا گردے کی نالی میں ہو، تو پھر پہلے اُس کے اندر ایک ٹیوب ڈالتے ہیں اور پھر اسے توڑتے ہیں۔ اب ہم نے اسٹنٹ بھی ڈالنا شروع کردئیے ہیں، جس کے دیگر اسپتالوں میں سوا لاکھ سے زاید وصول کیے جاتے ہیں، لیکن ہم ایک روپیا بھی نہیں لیتے۔پتھری عام طور پر پانی پینے ہی سے نکلتی ہے۔ 

اگر ہم اُسے لیزر کی مدد سے توڑ دیں، لیکن مریض بعد میں بار بار پانی نہ پیے، تو پتھری جسم ہی میں موجود رہے گی۔پتھری کو کسی صُورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ گردے کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔اگر یہ گردے کی نالی میں ہو، تو اُس سے پیشاب میں رکاوٹ آنے لگتی ہے، جس سے گردہ پھول کر آہستہ آہستہ گلنے لگتا ہے۔اگر اس کا بروقت علاج نہ کروایا جائے، تو گردہ کام کرنا بھی چھوڑ سکتا ہے۔ڈائی لائسسز کے بہت سے مریض ایسے ہیں، جن کے گردے پتھری ہی کی وجہ سے خراب ہوئے۔ خاص طور پر نوجوانوں میں یہ مسئلہ بہت سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ 

پھر یہ بھی کہ وہ پتھری زیادہ خطرناک ہے، جس میں درد نہ ہوتا ہو۔ وہ خاموش قاتل ہے، جو اندر ہی اندر گردے کو ختم کرتی رہتی ہے اور پتا بھی نہیں چلتا اور جب پتا چلتا ہے، تو گردہ خراب ہو چُکا ہوتا ہے۔ یوں تو پتھری کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، تاہم پروٹین زیادہ لینا، جیسے خوارک میں گوشت کا استعمال زیادہ ہو یا نمک ضرورت سے زاید استعمال کیا جائے اور پانی کم پینے سے بھی گردے میں پتھری بن جاتی ہے۔‘‘

گُردوں کے مفت علاج کا اسپتال
شعاؤں کے ذریعے پتھری توڑنے کے لیے جدید ترین مشین موجود ہے

بعدازاں، ہم ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے، جہاں بہت سے مریض بیڈز پر لیٹے ہوئے تھے۔اُن کے سرہانے مشینز رکھی ہوئی تھیں اور عملہ اِدھر سے اُدھر آ جا رہا تھا۔ ڈاکٹر سعید نے بتایا’’ یہاں ایک شفٹ میں 35 مریضوں کا ڈائی لائسسز کیا جاتا ہے اور دن میں تین شفٹس ہوتی ہیں۔چوں کہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اِس لیے ڈائی لائسسز مشینز کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔‘‘ وہاں ایک اچھی بات یہ بھی دیکھی کہ ہال میں قرآنِ پاک کی تلاوت کی ریکارڈنگ چلائی جا رہی تھی۔

اِس موقعے پر ہماری مریضوں سے بھی بات چیت ہوئی، جو اسپتال کی جانب سے فراہم کردہ سہولتوں سے خاصے مطمئن نظر آئے۔جواں سال محمّد اویس، بلاک بی نارتھ ناظم آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا’’ تقریباً دو برس سے میرے گردے کام نہیں کر پارہے، جس کی وجہ سے ڈائی لائسسز کروا رہا ہوں۔ یہاں علاج مفت اور عزّت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ عملے کا رویّہ بھی بہت اچھا ہے۔‘‘ محمّد طارق کا بھی ڈائی لائسسز ہو رہا تھا۔ وہ فیڈرل بی ایریا کے رہائشی ہیں۔ 

ایک سوال پر اُنھوں نے کہا’’ ساڑھے چار سال سے گردوں کے امراض میں مبتلا ہوں اور یہاں سال بھر سے آ رہا ہوں۔ بہت توجّہ سے علاج کیا جا رہا ہے، سارے ٹیسٹس وغیرہ بھی مفت ہوتے ہیں۔‘‘ ذکیہ نامی ضعیف خاتون کے گردوں کی صفائی کی تیاری کی جا رہی تھی۔ ہم اُن کے پاس کچھ دیر کھڑے ہوئے اور حال احوال دریافت کیا، تو بولیں’’ بس بیٹا! وقت گزار رہی ہوں۔ اللہ اِن بچّوں کو خوش رکھے، جو اپنی ماں کی طرح میری خدمت کرتے ہیں۔ سارا علاج مفت کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر خرّم نے بتایا’’ ڈائی لائسسز کے لیے سب سے پہلے اے وی فیسٹولا بنایا جاتا ہے، جس کے نجی اسپتالوں میں 50 ہزار روپے تک وصول کیے جاتے ہیں، مگر یہاں اِس مَد میں کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ 

گُردوں کے مفت علاج کا اسپتال
آئی سی یو وارڈ بھی تیار ہوچکا ہے

یہ ایک پیچیدہ کام ہے، جو صرف ویسکیولر سرجن ہی سَرانجام دے سکتا ہے۔ جب کبھی ڈائی لائسسز کی ضرورت ہو، تو اسی کے ذریعے جسم کو مشین سے منسلک کردیا جاتا ہے۔‘‘’’ ڈائی لائسسز تو اور مقامات پر بھی ہو رہے ہیں، اِس اسپتال کی کیا انفرادیت ہے؟‘‘ اِس سوال پر اُن کا کہنا تھا’’ ایک تو یہ کہ ہم ڈائی لائسسز مفت کرتے ہیں، پھر یہ کہ ہم صرف ڈائی لائسسز ہی نہیں کرتے، بلکہ دو کنسلٹنٹس کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں، جو مریضوں کی رہ نُمائی بھی کرتے ہیں۔ مریضوں کی پراپر مانیٹرنگ ہوتی ہے، اگر کوئی پیچیدگی ہو تو فوری قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر گردے کا کوئی مریض دِل یا کسی اور مرض میں مبتلا ہے، تو اُسے ہم اپنی ذمّے داری پر کسی اسپتال بھجواتے ہیں اور اُس کا فیڈ بیک بھی لیتے رہتے ہیں۔ گویا ہم ڈائی لائسسز کے مریضوں کی ہر چیز اون کرتے ہیں۔

گُردوں کے مفت علاج کا اسپتال
ڈاکٹر فاریہ، ماہر امراضِ گردہ

جہاں تک مشینز کے معیار کی بات ہے، تو ہمارے پاس بھی وہی اور اُسی ماڈلز کی مشینز ہیں، جو شہر کے نجی اسپتالوں میں ہیں۔ نیز، ہمارا عملہ بھی تربیت یافتہ ہے۔اُن میں بیش تر بڑے اسپتالوں میں خدمات انجام دے چُکے ہیں۔‘‘ اسپتال میں کئی کنسلٹنس کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ ایک کمرے میں ڈاکٹر فاریہ مریضوں کا معاینہ کر رہی تھیں۔’’ کس طرح کے مریض زیادہ آتے ہیں؟‘‘ اِس سوال کے جواب میں اُنھوں نے بتایا’’ زیادہ تر گردوں کے ایسے مریض آتے ہیں، جن کا شوگر اور بلڈ پریشر قابو میں نہیں ہوتا۔

وزن بڑھا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے گردے ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پاتے۔ لاپروائی کی انتہا ہے کہ شوگر کے مرض کے باوجود کئی کئی برس گردوں کا معاینہ تک نہیں کرواتے۔‘‘ اِس سوال پر کہ’’ عام طور پر مریضوں کو کیا مشورہ دیتی ہیں؟‘‘ اُن کا کہنا تھا’’ ہم اُنھیں بتاتے ہیں کہ پانی کتنا پینا ہے؟ کون سی دوا کھانی ہے اور کون سی نہیں؟ یہ بھی کہ حکیموں یا ہومیو پیتھک علاج کے چکر میں نہ پڑیں۔چوں کہ گردوں کے امراض بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جن کا بنیادی سبب موٹاپا، بے قابو شوگر اور بلڈ پریشر، وٹامنز کا زاید استعمال، جنک فوڈز اور پین کلرز کا اندھا دھند استعمال ہے، تو ہم ایسے افراد کو روز مرّہ زندگی کے انداز بدلنے کا مشورہ دیتے ہیں اور اِس ضمن میں اُن کی مکمل رہ نُمائی کرتے ہیں۔‘‘

گُردوں کے مفت علاج کا اسپتال
اسپتال کے ایم ایس، ڈاکٹر خرم دانیال نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

اسپتال میں آئی سی یو کی تعمیر آخری مرحلے میں داخل ہو چُکی ہے، فی الحال 10 بیڈز لگائے گئے ہیں۔اِس ضمن میں انتظامیہ نے بتایا کہ’’ڈائی لائسسز کے مریضوں کی طبیعت بگڑتے دیر نہیں لگتی، اُنھیں ہارٹ اٹیک یا فالج ہوسکتا ہے۔ فی الوقت تو اگر ڈائی لائسسز کے دَوران کسی مریض کی طبیعت بگڑتی ہے، تو ہم ڈائی لائسسز روک کر اُسے فوری طور پر کسی اور اسپتال منتقل کرتے ہیں، لیکن اسی ضرورت کے پیشِ نظر آئی سی یو بنایا جا رہا ہے، جہاں ہر بیڈ پر وینٹی لیٹر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔چوں کہ ایک وینٹی لیٹر 45 لاکھ روپے تک میں آتا ہے، لہٰذا اس کے لیے خاصی بڑی رقم کی ضرورت ہے۔‘‘آئی سی یو کے قریب ہی لیب موجود ہے، جہاں عملہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ لیب انچارج، رانا شفیع احمد نے بتایا ’’یہاں گردوں سے متعلق تمام ضروری ٹیسٹس کی سہولت موجود ہے۔ یومیہ چار درجن کے لگ بھگ ٹیسٹ کرتے ہیں ۔‘‘کیا کورونا نے یہاں بھی کچھ رخنہ ڈالا ہے؟‘‘اسپتال کے ایم ایس نے جواباً بتایا’’جی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بلکہ کورونا کے سبب کئی نئے شعبوں میں تمام تر تیاری کے باوجود کام کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔ ڈائی لائسسز کے مریضوں میں قوّتِ مدافعت بالکل نہیں ہوتی، تو یہ کورونا کا آسان ہدف ہیں۔ 

ہم نے اپنے مریضوں کو تو خُوب سنبھال کر رکھا کہ وہ کورونا کا نشانہ نہ بنیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو نئے مریض آ رہے ہیں، اُن میں سے کئی ایک کورونا زدہ ہیں۔جب ہم نے اُنھیں لینے سے انکار کیا، تو وہ پریشان ہوگئے کہ کہاں جائیں، کیوں کہ اس اسپتال کے علاوہ صرف ایس آئی یو ٹی اور انڈس اسپتال ہی میں مفت ڈائی لائسسز ہوتا ہے۔نیز، کئی ایسے کورونا زدہ مریض بھی ہمارے پاس آئے، جنھوں نے اپنی رپورٹ چُھپا لی۔۔کہتے ہیں’’ جی، مَیں فلاں جگہ سے علاج کروا رہا تھا، اب اُنھوں نے بند کر دیا ہے، تو یہاں سے علاج کروانا چاہتا ہوں۔‘‘جب ہم پوچھتے ہیں کہ’’ اُنھوں نے علاج کیوں بند کردیا؟‘‘ تو اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ہم ایسے افراد کو علاج شروع کرنے سے قبل کورونا ٹیسٹ کروانے کا کہتے ہیں، تب وہ جیب سے رپورٹ نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ 

گویا وہ نہ صرف یہ کہ عملے بلکہ دیگر مریضوں کے لیے بھی خود کُش بم بار بنے پِھر رہے ہیں۔ بتائیے، اِس سے بڑی جہالت، غفلت اور لاپروائی کیا ہوگی؟ جب ہم اُن پر کچھ سختی کرتے ہیں، تو اُلٹا ہم ہی پر الزام تراشیاں شروع کردیتے ہیں۔اگر ایسے افراد ہمیں سچ سچ بتا دیں، تو اُنھیں اسپتال سے نکال تو نہیں دیا جائے گا۔البتہ ہم اُنھیں ایسے مریضوں کے لیے مختص الگ یونٹ بھجوا دیں گے، جہاں وہ محفوظ ہوں گے اور دیگر مریض بھی اُن سے محفوظ رہیں گے۔ہم نے اِسی ضرورت کے پیشِ نظر ہنگامی بنیادوں پر کورونا وارڈ تیار کیا ہے۔‘‘

گُردوں کے مفت علاج کا اسپتال
ڈائی لائسسز کے عمل سے گزرنے والے مختلف مریضوں نے فراہم کردہ سہولتوں پر اطمینان کا اظہار کیا

اسپتال میں کاؤنٹر تو ہے، مگر کوئی کیش کاؤنٹر نظر نہیں آیا۔جب کوئی مریض آتا ہے، تو اُسے ایک درخواست فارم دیا جاتا ہے، جو زکوٰۃ فنڈ کے لیے ہوتا ہے۔ اگر کوئی اُس فنڈ سے مدد نہ لینا چاہے، تو اسپتال کے پاس زکوٰۃ سے ہٹ کر بھی فنڈز موجود ہیں، جن سے ایسے افراد کی معاونت کی جاتی ہے، جو زکوٰۃ نہیں لے سکتے، جیسے سیّد یا غیر مسلم، لیکن ایسے مریض بہت کم ہوتے ہیں، زیادہ تر زکوٰۃ فارم پُر کردیتے ہیں۔ وِزٹ کے دَوران یہ بھی پتا چلا کہ اسپتال انتظامیہ نے کئی ضرورت مند مریضوں کو گھر تک جانے کا کرایہ بھی دیا، جب کہ بورڈ کے ایک رُکن کی جانب سے مریضوں اور اُن کے تیمار داروں کو دو وقت کا کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ نیز، لاک ڈاؤن کے دَوران بہت سے مریضوں میں راشن بھی تقسیم کیا گیا۔

اسپتال میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی متحرّک نظر آیا۔وہاں دو طرح کے فارمز موجود تھے۔ ایک سُرخ اور دوسرا پیلا۔ پیلے فارم میں مریض انتظامیہ سے متعلق شکایت درج کر سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ایم ایس اور بورڈ ارکان بھی وِزٹ کرتے رہتے ہیں۔ مریضوں کی زیادہ تر شکایات تیمار داروں سے متعلق ہوتی ہیں کہ اُنھیں بیٹھنے کیوں نہیں دیا؟ عملے نے اندر آنے سے کیوں روکا؟ یا مریض کو کچھ انتظار کیوں کروایا گیا؟سُرخ فارم میں اسپتال کا عملہ مریضوں کے رویّے کے بارے میں شکایت درج کرتا ہے۔اِس ضمن میں عملے کے ایک رُکن نے بتایا’’تیمار داری بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، ایسے افراد کھانا بھی مریض کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر کھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم تو سمجھا سمجھا کر تھک گئے۔‘‘

اسپتال انتظامیہ گردوں کے اِس اسپتال کو بہت جلد اسٹیٹ آف دی آرٹ کڈنی سینٹر میں بدلنے کا عزم رکھتی ہے، جس کے لیے اُسے عوام، مخیّر افراد اور حکومتی اداروں کی بھرپور معاونت کی ضرورت ہے۔اخراجات ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ سے بڑھ کر 75 لاکھ روپے ماہانہ تک جا پہنچے ہیں اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ بورڈ ارکان عمارت میں توسیع چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کے ایم سی ضرورت کے مطابق نئی عمارت تعمیر کرے اور اگر اُس کے لیے ایسا ممکن نہیں، تو وہ اسپتال کے بورڈ کو تعمیر کی اجازت دے، جو اپنے وسائل سے عمارت میں ضروری توسیع کرلے گا کہ خالی جگہ بہت ہے۔نیز، بورڈ ارکان کی خواہش ہے کہ حکومت اُن کے ساتھ مِل کر ایک ایسی باڈی بنائے، جو قانونی طور پر ہر سطح پہ تسلیم کی جائے تاکہ عوامی فلاح وبہبود کے کاموں میں مزید آسانی ہوسکے۔

پانی سے محروم اسپتال

ڈائی لائسسز کے مریض کو 300 لیٹر تک پانی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اُس کے گردوں کی صفائی ہوسکے۔ اِس مقصد کے لیے عام پانی استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا عام پانی کو کارآمد بنانے کے لیے آر او پلانٹس سے گزارنا پڑتا ہے تاکہ اُس کی ٹی ڈی ایس کم ہوسکے۔ یوں تین سو لیٹر صاف پانی کے لیے 900 سو لیٹر عام پانی چاہیے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لائن کے ذریعے ہفتے میں ایک دو دن ہی پانی آتا ہے۔ اسپتال کو یومیہ آٹھ سے دس ہزار گیلن پانی کی ضرورت ہے، جب کہ لائن سے دو ہزار گیلن پانی آتا ہے اور وہ بھی کبھی آتا ہے، کبھی نہیں۔ اِس لیے مجبوراً پانی کے ٹینکرز منگوانے پڑتے ہیں۔ ایک ٹینکر ڈی سی صاحب کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔ 

پانی نہ ہونے کی وجہ سے 10 ڈائی لیسسز مشینز بند پڑی ہیں۔ واٹر بورڈ سے رابطہ کیا جائے، تو جواب ملتا ہے’’ ہمارے پاس پانی ہے ہی نہیں، تمہیں کہاں سے دیں؟‘‘ بورنگ کے پانی میں بہت زیادہ ٹی ڈی ایس ہوتی ہے، لہٰذا اُسے کارآمد بنانے کے لیے اسپتال انتظامیہ نے بڑے آر او پلانٹس لگائے ہیں، جن کے کام شروع کرنے پر بورنگ کا پانی بھی قابلِ استعمال بنایا جا سکے گا۔تاہم، اِس ضمن میں کے ایم سی کو ترجیحی بنیادوں پر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ عوام کی جان کی حفاظت کا معاملہ ہے۔

اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا، ہر مشکل آسان ہوتی گئی

منصور نواب اسپتال چلانے والے بورڈ کے صدر ہیں۔اُنھوں نے اپنی جدوجہد کو کچھ یوں الفاظ کا جامہ پہنایا’’ چچا، چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس اجمل میاں کو دیکھ کر وکالت کا شوق ہوا، لیکن پھر حج کے بعد وکالت چھوڑ کر کاروبار شروع کردیا۔ سِول اسپتال کے قریب میرا کاروبار تھا، جہاں کبھی کوئی مریض دوا کے لیے، تو کوئی ایکس رے کے لیے مدد مانگنے آجاتا۔ ایک روز ایک ضعیف شخص ایکس رے کے لیے پیسے مانگنے آیا، مَیں نے ملازم کے ساتھ بھیج کر اُس کا ایکس رے کروادیا، لیکن پھر سوچا کہ اِس کا کام تو ہوگیا، مگر نہ جانے کتنے افراد ایسے ہوں گے، جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایکس رے نہ کروا پاتے ہوں۔ خیال آیا، کیوں نہ سِول اسپتال میں پڑی خراب مشینز کو درست کروا دوں۔ 

جب اسپتال سے معلومات لیں، تو پتا چلا کہ وہاں تو آٹھ کی آٹھ ایکس رے مشینز خراب پڑی ہیں اور فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی مرمّت بھی نہیں ہو پا رہی۔ مَیں نے اسپتال کے ایم ایس، وزیرِ صحت، گورنر سمیت بہت سے حکّام سے ملاقاتیں کیں، مگر کسی نے کوئی خاص دل چسپی نہیں لی۔ آخر اسپتال والوں سے معلوم کرکے مشینز بنانے والی کمپنی کے ہیڈ آفس پہنچ گیا اور انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر، شاہد صاحب کو کہا’’ مَیں محض اللہ کے کام سے آپ کے پاس آیا ہوں اور آپ بھی اللہ کے لیے کام کردیں۔اسپتال کی مشینز خراب ہیں اور آپ کی کمپنی اُن کی مرمّت کے کروڑوں روپے مانگ رہی ہے، جو اسپتال کے پاس نہیں ہیں، جس کی وجہ سے غریب مریض رُل رہے ہیں۔‘‘اس پر اُنھوں نے اپنی ٹیم کو سِول اسپتال بھیجا۔ 

انجینئر جو دو ہزار روپے گھنٹہ فیس چارج کرتا ہے، اُس نے پورا ہفتہ لگ کر تین مشینز ٹھیک کردیں، جب کہ تین کے لیے مجھے پارٹس لکھوا دئیے، جو جلد ہی منگوا کر دے دئیے گئے، یوں وہاں کا ایکس رے ڈیپارٹمنٹ فعال ہوگیا۔ مَیں گزشتہ 22 سال سے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر سِول اسپتال میں کام کر رہا ہوں۔ الٹرا ساؤنڈ ڈیپارٹمنٹ تو مکمل طور پر ہم ہی نے بنایا ہے۔انڈس اسپتال کا بانی رُکن اور سابق بورڈ ممبر ہوں۔ زکوٰۃ کمیٹی کا چئیرمین بھی رہ چُکا ہوں۔ میں’’KIKD‘‘ کے قریب منتقل ہوا، تو آتے جاتے اِس کی ویران عمارت دیکھ کر دل دُکھتا تھا۔ لہٰذا ایک روز مئیر، وسیم اختر کے پاس جا پہنچا اور اُن سے اسپتال گود لینے کی بات کی، جس پر وہ ہمارا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے آمادہ ہوگئے، یوں اسے ہمارے سُپرد کردیا گیا۔‘‘

تازہ ترین