• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی(مظہر عباس) گزشتہ چالیس سال کے دوران سیاست میں جرم کافی داخل ہوگیا ہےاور کراچی جو کبھی سیاسی مزاحمت کا مرکز ہوتا تھاپہلی افغان جنگ کے زمانے سے مجرموں کا گڑھ بن گیا۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں شہر کے مضافات میں واقع سہراب گوٹھ میں منشیات اور اسلحہ ذخیرہ کئے جاتے تھے جو وہاں سے شہر کو سپلائی ہوتے اور باہر بھی اسمگل ہوتے تھے.

یہ سب کچھ پاکستان کی بدترین آمریت کے گیارہ سالہ دور میں ہوا جب معاشرے سے سیاست کو ختم کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں مجرموں کے گینگز اور نسلی اور فرقہ وارانہ گروپوں نے جنم لیا. صرف اس شہر میں پچاس ہزار افراد مارے گئے اور سب سے بڑی ہزیمت سیاست کو ہوئی. جس کے بعد کراچی شہر اور اس کی سیاست پھر کبھی معمول پر نہ آسکے. پچھلے ایک ہفتے سے ہم جے آئی ٹیز پر محض سیاست کررہے ہیں.

ورنہ وفاقی وزیر جہازرانی علی زیدی کو جو بھی دستاویزات تین سال پہلے ملی تھیں، وہ انہوں نے ایسے ہی نہ رکھی ہوتیں. اسی طرح سندھ حکومت نے کیوں جے آئی ٹیز رپورٹس پبلک کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور انتظار کیا کہ کوئی سندھ ہائی کورٹ جائے. تیسری بات یہ کہ جن افراد کے نام تین جے آئی ٹیز کے اعترافی بیانوں میں آئے ہیں، انہیں رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کبھی گرفتار کرکے مقدمہ کیوں نہیں چلایا جب کہ انہیں پورے اختیارات حاصل تھے. چونکہ جے آئی ٹیز کو کوئی قانونی ویلیو حاصل نہیں اس لئے یہ محض وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے محافظ خانوں کی زینت ہیں.

اگر ہم واقعی معاشرے کو معمول پر لانا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف سیاست کو جرم سے الگ کرنا ہوگا بلکہ مجرم گینگ بنانا اور ان کی مدد کرنا بند کرنا ہوگا. اچھے اور برے دہشت گرد اور مجرم کوئی نہیں. کسی کے توڑ یا برابر کرنے کیلئے سیاسی گروپ بنانے کا سلسلہ بھی اب بند کردینا چاہئیے. سیاسی انجنئیرنگ کے کلچر کا خاتمہ اب وقت کا تقاضا ہے. کرپشن سے جرائم پیدا ہوتے ہیں اور ان پر صرف بلا رو رعایت سب کے یکساں احتساب سے قابو پایا جاسکتا ہے.

تقریبا" تین کروڑ نفوس کے اس شہر نے ایرانی اور افغان انقلاب کے بعد پراکسی وارز اور طالبان اور القاعدہ کی موجودگی سے بہت خون خرابہ دیکھا ہے. اب سب سے بڑا جواب طلب سوال یہ ہے کہ اس سب کچھ کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے. پہلی افغان جنگ کی حمایت کرنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس نے پاکستانی معاشرے، ثقافت اور سیاست کو کتنا نقصان پہنچایا. اپنے بعض دوسرے صحافی ساتھیوں کی طرح میں بے شمار لاشوں، ان اہم شخصیات کے قتل کا شاہد ہوں جن کے قاتل پکڑے گئے نہ انہیں سزا ملی.

ہم نے کسی کے توڑ کیلئے مخالف پریشر گروپ بنتے بھی دیکھے. 1992 میں ایم کیو ایم کی شدت پسندی کے مقابلے کیلئے ایم کیو ایم (حقیقی) بننے سے ان کے سیکڑوں کارکن مارے گئے اور صورت حال مزید بگڑ گئی.اس کے نتیجے میں دو بڑی ایجنسیوں میں اختلافات رائے بھی پیدا ہوئے. ایک ایجنسی مجرموں کا مکمل صفایا چاہتی تھی اور دوسری کا خیال تھا کہ ایک کے سیاسی مقابلے کیلئے اس کے سامنے ایک متوازی گروپ ہو. اس سب سے امن امان کی صورت حال مزید بگڑ گئی. 1986 میں سابق وزیراعلیʼ سید غوث علی شاہ نے سہراب گوٹھ میں آپریشن کلین اپ کا حکم دیا تو مافیا نے بڑے پیمانے پر قتل وغارت سے اس کا جواب دیا.

علی گڑھ اور قصبہ کالونی میں ڈیڑھ سو افراد کا زندہ جلایا جانا یا قتل اس کرمنلائزیشن ہی کا نتیجہ تھا . شاہ صاحب نے چند سال پہلے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ ان پر آپریشن روکنے کیلئے شدید دباؤ تھا. مجھے کہا گیا کہ آپریشن روک دیا جائے اور یہ روک دیا گیا. اس کی وجوہ کیا تھیں، یہ انہیں ہی پتہ ہوگا. " مقبول جماعت مہاجر قومی موومنٹ( جو بعد میں متحدہ قومی موومنٹ بن گئی) کے شدت پسند عناصر نے نہ صرف پارٹی کو نقصان پہنچایا بلکہ 2016 میں اسے تقریبا" ختم کردیا.

لیکن سالہا انہیں کس نے اور کن مقاصد کیلئے استعمال کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے.لیکن اگر کوئی 12 مئی 2007 کے حقائق سامنے رکھے تو یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا کہ طاقت ور حلقوں نے کس طرح شدت پسند فیکٹر کو سیاسی فوائد کیلئے استعمال کیا.

لیاری اور لیاری گینگ وار کی اپنی تاریخ ہے. ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی سے پہلے لیاری کی سیاست ہارون فیملی کے ہاتھ میں تھی. اس زمانے میں بھی داد محمد اور شیرو گینگ مشہور تھے. 1970 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے عبدالستار گبول نے سعید ہارون کو بڑے فرق سے شکست دی. صوبائی اسمبلی کی نشست بھی پیپلز پارٹی کےاحمد علی سومرو نے جیتی.

لیاری کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ لیاری اس لئے 2013 تک پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ رہا کہ بھٹو نے لیاری کے ہزاروں بے روزگارنوجوانوں کو روزگار کیلئے مشرق وسطیʼ بالخصوص مسقط، دبئی اور سعودی عرب بھیجا. جمہوریت کیلئے جانیں قربان کرنے والے لیاری کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی فہرست خاصی طویل ہے.

جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو پھانسی دیدی اور ان کے بیٹوں نے الذوالفقار تنظیم بنائی تو کئی نے شدت پسندی بھی اختیار کی. لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن الذوالفقار سے دور ہی رہے۔

تازہ ترین