• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوبل امن انعام کی نامزدگی اور حصول کیلئے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس میں نامزد فرد یا ادارے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو نامزد کرنے والا ممبر پارلیمنٹ ،بین الاقوامی کورٹ کا جج، نوبل انعام یافتہ یا نوبل کمیٹی کا سابقہ یا حاضر رکن ہو۔ نوبل امن انعامی کمیٹی ہی اس انعام کو تقسیم کرنے کی ذمہ دار اور جواب دہ ہوتی ہے۔ کمیٹی ناروجئین پارلیمنٹ کے طے کردہ پانچ نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ستمبر سے فروری تک کمیٹی امیدواروں کی درخواست جمع کر لیتی ہے۔ مارچ تا اپریل ایک حتمی فہرست تیار کر لی جاتی ہے۔ مئی تا ستمبر کمیٹی نظرثانی کے بعد ایک مثاوراتی رپورٹ مرتب کر لیتی ہے۔ اکتوبر کے پہلے عشرے میں کثرت رائے سے فائنل امیدوار طے کر کے باقاعدہ اعلان کر دیا جاتا ہے۔ 10؍دسمبر الفریڈ نوبل کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک شاندار تقریب میں انعام اور انعامی رقم کامیاب امیدوار وصول کر لیتا ہے۔عبدالستار ایدھی کو ملالہ یوسف زئی نے اپنے والد ضیاالدین یوسف زئی کی درخواست پر 2016کے نوبل انعام کیلئے ان الفاظ کے ساتھ نامزد کیا ہے کہ جناب عبدالستار ایدھی کی انسانیت کیلئے خدمات، مسلسل اور ان تھک جدوجہد ہمیشہ ہی سے میرے لئے متّاثر کن رہی ہے۔ ایدھی صاحب نے بلقیس ایدھی کے ہمراہ پاکستان میں معاشرے کے ان کچلے ہوئے نہایت غریب اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے جن کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ ایدھی صاحب کا کردار ہم سب کیلئے قابل تقلید ہے۔ میں آپ سب کو دعوت دوں گی کہ آپ بھی میرے ساتھ شامل ہو کر ایدھی اور ان کی فائونڈیشن کو خراج عقیدت پیش کریں۔عبدالستار ایدھی یکم جنوری 1928ءکو بانٹوا گجرات انڈیا میں پیدا ہوئے۔ 1947ءمیں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے۔ 1951ءمیں ایدھی نے ایک میڈیکل اسٹور کا آغاز کیا جہاں ایک ڈاکٹر کی مدد سے طبی امداد کے بنیادی اصول سیکھے۔ 1957ءمیں جب کراچی کو انفلوانزا نے مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، ایدھی نے انتہائی غریب آبادیوں میں مفت ویکسی نیشن کا انتظام کیا۔ یہیں سے عوامی سطح پر عوامی امداد سے چلنے والی ایدھی فائونڈیشن کا آغاز ہوا۔ فائونڈیشن کے تحت بے شمار کلینکس، نفسیاتی مریضوں کیلئے فلاحی ادارے، معذوروں کیلئے رہائش، بچّوں اور عورتوں کیلئے بحرانی مراکز، بلڈ بینک، میّت گھر، گود لینے کے انتظامات اور 25بستروں پر مشتمل ایک کینسر اسپتال کے علاوہ ہر قسم کی امداد کیلئے ہر لمحہ اور ہر موقع پر رضاکار سرگرم ہیں۔گنیس ریکارڈ بک (2000)کے مطابق ایدھی فائونڈیشن کے تحت دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولنس سروس پاکستان میں دستیاب ہے جس میں اب ہیلی کاپٹر بھی شامل کر دیئے گئے ہیں۔ ایدھی فائونڈیشن کی شاخیں افریقہ، مڈل ایسٹ، مشرقی یورپ اور بنگلہ دیش میں بھی قائم ہیں۔ دنیا سے بے شمار وفود اس عظیم الشان جذبۂ خدمت کا معائنہ کرنے پاکستان تشریف لاتے ہیں اور پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ کرتے ہیں۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔ایدھی ٹرسٹ کا نظام چونکہ عوام کی مالی اعانت سے سرگرم عمل ہے لہٰذا ٹرسٹ میں کرپشن کی روک تھام کیلئے بے مثال شفافیت کا بندوبست ہے1986ءمیں بلقیس ایدھی کے ہمراہ ایدھی نے سماجی خدمات کا سب سے بڑا اعزاز Raman Magsaysayحاصل کیا۔ اسکے علاوہ لینن امن انعام اور بین الاقوامی Balzan انعامات بھی حاصل کر چکے ہیں۔ کئی مقامی اور بین الاقوامی جامعات سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بھی انہیں عطا کی گئی ہیں۔ 1989ءمیں ایدھی کو پاکستان کے سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ 2013میں Express Man Of The Year منتخب کیا۔ اب نوبل امن انعام کے ذریعے ان کی شخصیت بین الاقوامی سطح پر روشناس اور نوبل انعام کو مزید وقار حاصل ہو گا۔
تازہ ترین