• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی کراچی کے شہری خوش ہونے کے بجائے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ برسوں سے اس عذاب سے گزرتے آرہے ہیں اور ہر برس سرکاری حکام طفل تسلی اور بیانات کے ذریعے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔زمینی حقایق بتاتے ہیں کہ اس برس بھی شہر کے باسیوں کو برسات کی وجہ سے طویل ٹریفک جام ہونے، جگہ جگہ برسات کا پانی جمع ہونے اور گھروں، دفاتر اور دکانوں میں پانی داخل ہونے کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ 

ان تمام مسائل کی وجہ شہر کے برساتی نالوں کی ناگفتہ بہ صورت حال ہے۔اس موسمِ برسات میں بھی ان کی صفائی کے معاملے پر سیاست جاری ہے۔لیکن شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق کراچی کے نالوں کی صرف صفائی ہی اہم مسئلہ نہیں ۔اصل مسئلہ انہیں اون کرنے اور ان کی اہمیت تسلیم کرنے کا ہے ۔ ہمیں ان کے ’’نالے‘‘بھی سننے چاہییں۔اگر اس جانب فوری توجہ نہیں دی گئی، تو ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔

کراچی میگاپولیٹن شہر ہونے کے باوجود اتنا بدقسمت ہے کہ قیامِ پاکستان کو بہتّربرس گزرنے کے باوجود اس کا کوئی ماسٹر پلان نہیں بن سکا ہے۔ حالاں کہ اس شہر کو ملک کا پہلا دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور یہ طویل عرصے تک پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق شہر کا ماسٹر پلان نہ ہونا اس شہر کے زیادہ تر مسائل کی جڑ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر کا نکاسیِ آب کا نظام جب تک صحیح خطوط پر اُستوار نہیں ہوگا۔ 

اُس وقت تک شہرکے بہت سے مسائل ٹھوس بنیادوں پر حل نہیں ہوں گے۔ نکاسیِ آب کے نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس میں بارش کے پانی اور گند آب کی نکاسی شامل ہوتی ہے۔ کراچی میں یہ دونوں نظام بہت بُری حالت میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں جب بھی تھوڑی یا زیادہ بارش ہو پانی سڑکوں پر اور گلیوں میں جمع ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی گٹر اُبلنے لگتے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں بھی اس قسم کی شکایات سامنے آئیں۔

تباہ حال نظام

کراچی کی ستّر فی صد آبادی کچّی بستیوں میں رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں کچّی آبادیوں کی تعداد میں سالانہ دس فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کی آبادی سالانہ تقریبا پانچ فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ کچّی بستیاں چوں کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بستی ہیں، لہٰذا وہاں کوئی بھی شہری سہولت (یوٹیلٹی سروس) باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

تاہم ان بستیوں میں حکومت اور عوام نے اربوں روپے خرچ کرکے گند آب اور بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام تعمیر کیا ہے، جو بارش کے پانی اور فضلے کو کُھلے فطری نالوں تک لے جاتا ہے۔ منصوبہ بندی کے تحت بسائے گئے علاقوں سے بھی گند آب اور بارش کا پانی نالوں میں جاتا ہے، تاہم عدم توجّہ اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں بھی سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور اب ان کا رخ بھی فطری نالوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ 

ان علاقوں میں نظام کی تباہی کی اہم وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر علاقوں میں گہرے نالوں(Deep Sewers) پر مشتمل نظام قائم کیا گیا تھا، جسے احسن طریقے سے چلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا مشکل امر تھا۔

زمینی حقایق سے انحراف

ایک جانب شہر کے نکاسیِ آب کے نظام کو ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت اور زمینی حقائق کو مدِّنظر رکھے بغیر تعمیر کیا گیا اور دوسری جانب یہ ستم ہُوا کہ شہر میں موجود فطری اور مصنوعی طور پر تعمیر کیے گئے نالوں کی دیکھ بھال اور صفائی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان پر جگہ جگہ تجاوزات قائم ہوگئیں اور لوگوں نے انہیں کچرا کُنڈی کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ پھر یہ کہ ان میں وقت کے تقاضوں کے مطابق مناسب حد تک توسیع نہیں کی گئی۔ 

چناں چہ شہر کے بہت سے مقامات پر ان کی سطح سیوریج اور ڈرینج کے نظام سے بلند ہوگئی۔ اس غفلت اور لاپروائی کے نتیجے میں آج شہر میں تھوڑی سی بارش ہونے پر جگہ جگہ سیلاب کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اخبارات میں شایع ہونے والی تصاویر اور خبریں اس غفلت اور لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاہم اس صورتِ حال کی ذمّے دار صرف حکومت نہیں ہے، بلکہ اس میں عوام اور خواص کا بھی اہم کردار ہے۔ایک کے بعد دوسرا منصوبہ،مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔

شہر کے سیوریج اور ڈرینج کے مسائل پر قابو پانے کے لیے سرکاری اداروں نے وقتاً فوقتاً کئی منصوبے مکمل کیے، جن کے لیے عالمی اداروں سے بھاری قرضے لیے گئے اورمنہگے کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی گئیں، تاہم یہ مسائل پائے دار بنیادوں پر حل نہیں ہو سکے۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق ان منصوبوں کی ناکامی کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ انہیں بناتے اور ان پر عمل درآمد کرتے وقت زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا اور مختلف علاقوں کے عوام اور ان کے بلدیاتی نمائندوں نے غیر رسمی سیوریج اور ڈرینج کا نظام بنانے کے لیے جو اربوں روپے خرچ کیے تھے، انہیں مدِّنظر نہیں رکھا گیا۔ حالاں کہ یہ غیر رسمی نظام شہر کے فطری نالوں یا آبی گزرگاہوں(Drains) سے جا کر ملتا تھا۔ 

دوسری طرف ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب، کراچی کا عظیم تر منصوبہ نکاسیِ آب(گریٹر کراچی سیوریج پلان) اس نکتے کے گرد گھومتا رہا کہ شہر کے تمام تر فضلے اور گند آب کو ٹریٹمینٹ پلانٹس تک لے جایا جائے اور بارش کے پانی کو گند آب(سیوریج) سے علیحدہ کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ دونوں نکات صحیح تھے، لیکن کراچی کے معروضی حقایق کے تناظر میں ان نکات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا بلکہ یہ منصوبے بنانے اور ان پر عمل درآمد کرتے وقت شہر کے برسرِ زمین موجود حقایق سے صرفِ نظر کیا گیا اور یہاں عوام اور پچھلی حکومتوں نے جو کام کیے تھے اور جن پر تاحال کراچی کے ڈرینج اور سیوریج کے نظام کا انحصار ہے، انہیں نئے منصوبوں میں شامل کرنے میں مکمل ناکامی ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے نے شہر میں جو سیوریج ٹرنکس تعمیر کیے، وہ خشک رہے اور ٹریٹمینٹ پلانٹس کومطلوبہ مقدار میں فضلہ (سیوریج) نہیں ملتا۔

ماہرین کے مطابق دوسری غلطی یہ کی گئی کہ ٹریٹمینٹ پلانٹس تک فضلہ لانے کے لیے ڈرینج چینلز یا نالوں کو ذریعہ بنایا گیا۔ اس طرح ادارے نے سیوریج اور بارش کے پانی کو علیحدہ رکھنے کے لیے جو نظام بنایا تھا، اُس کی خود ہی نفی کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں روزانہ جو سیوریج پیدا ہوتا ہےاس میں سے صرف 70 ملین گیلن ٹریٹمینٹ پلانٹس تک پہنچ پاتا ہے اور وہ بھی وسیع پیمانے پر بنائے گئے منصوبوں اور بھاری خرچ کے بعد۔ کراچی میں اس وقت کُل تین ٹریٹمینٹ پلانٹس ہیں، جن کی کُل استعدادِ کار 151 ایم جی ڈی ہے۔ ماہرین کے مطابق عظیم تر منصوبۂ نکاسیِِ آب کے لیے ادارۂ فراہمی و نکاسیِِ آب کو عالمی اداروں سے بھاری قرضے لینا پڑے،جن کا بوجھ بالآخر کراچی کے غریب عوام ہی پر پڑا، لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہُوا۔

منصوبوں میں عوام کو شریک کیا جائے

ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، اورنگی پائلٹ پروجیکٹ 1980ء سے کراچی کی کچّی آبادیوں میں رہنے والوں کے ساتھ مل کر شہر کے سیوریج سے متعلق مسائل پر تحقیق، منصوبہ بندی اور منصوبوں پر عمل درآمد کا کام کر رہا ہے۔ چناں چہ یہ ادارہ اس حوالے سے زمینی حقائق کو سمجھنے اور انہیں دستاویزی شکل دینے، اس سرگرمی میں شامل رسمی اور غیر رسمی کرداروں کی مدد کرکے انہیں اپنے کام کا معیار بہتر بنانے اور اسے توسیع دینے کے قابل ہوگیا ہے۔ یہ ادارہ اورنگی ٹاؤن سمیت کراچی کی مختلف کچّی بستیوں اور ملک کے مختلف علاقوں میں منصوبہ بندی کے تحت بسائی گئی بستیوں میں اپنے تیارکردہ منصوبوں پر کام یابی سے عمل درآمد کرچکا ہے۔ 

اس ضمن میں اس ادارے نے کالعدم بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ کچّی آبادی اتھارٹی سے بھی تعاون کیا۔ اس کے ڈیزائن کیے ہوئے منصوبے کم قیمت اور قابلِ عمل ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے بھاری بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس ادارے نے اپنے طورپر برسوں محنت کرکےکراچی کے نالوں کے تفصیلی نقشے بنائےاور اگر یہ کہا جائے کہ شہری خدمات فراہم کرنے والے کراچی یا صوبے کے کسی ادارے کے پاس ایسے تفصیلی نقشے نہیں ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی مرحوم ڈائریکٹر پروین رحمٰن کا موقف تھا کہ کراچی کے سیوریج اور ڈرینج کے مسائل حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت بھاری بیرونی قرضے لے کر منصوبے تعمیر کرنے کے بجائے ان میں عوام کو شریک کرے اور صرف بڑے بڑے منصوبے تعمیر کرنے کا کام حکومت کرے۔ دوم یہ کہ متعلقہ سرکاری ادارے فطری نالوں کو واضح حقیقت سمجھ کر قبول کریں، انہیں مکمل تحفظ دیں، ان پر تجاوزات قائم نہ ہونے دیں اور ان کی مستقل بنیادوں پر صفائی کا اہتمام کریں۔ 

لیاری ندی، گجر نالا، ملیر ندی اور اورنگی نالا شہر کے فطری مرکزی نالے یا ڈرین ہیں۔ ان کی ہر صورت میں حفاظت کی جانی چاہیے۔ اگر حکومت چاہے تو ان کے دونوں طرف باکس ڈرین(پختہ اور ڈھکے ہوئے گند آب کے نالے) تعمیر کردے تاکہ گند آب ان میں جائے اور فطری نالے یا ڈرین صرف بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے مخصوص رہیں۔ اس کے علاوہ نالے یا ڈرین فطری ہوں یا مصنوعی طور پر تعمیر کردہ ہوں، انہیں پختہ کیا جائے، ڈھانپا جائے اورکہیں بھی ان کی چوڑائی اور گہرائی کو کم نہ کیا جائے۔ان باکس ڈرین کے آخری سِرے پر (سمندر کے کنارے) ٹریٹمینٹ پلانٹس لگا دِیے جائیں۔

او پی پی کے ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے پورے کراچی کے ایک ایک نالے کو ڈیجیٹائز کیا ہے اور یہ نقشے ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب کو بھی فراہم کیے ہیں۔ اورنگی میں پہلے نالے پختہ نہیں تھے تو بارشوں میں بہت سے گھر پانی میں ڈوب جاتے تھے۔ او پی پی نے لوگوں کو اس تکلیف دہ صورتِ حال سے بچانے کے لیے انہیں سمجھایا کہ اس مسئلے کا حل پختہ نالوں کی تعمیر ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف وہ گندگی سے نجات پا لیں گے، بلکہ ان کے مکانوں کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ اس طرح لوگ پختہ نالوں کی تعمیر کے لیے راضی ہوگئے اور اپنے ہاتھوں سے بعض گھروں کے کچھ حصّے توڑکر نالے بنانے کے لیے جگہ فراہم کی۔ تاہم او پی پی نے نالوں کی ڈیزائننگ کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان غریب افراد کے کم سے کم گھر زد میں آئیں۔گجر نالے کو پختہ کرنے کے ضمن میں اس مثال کو مشعل راہ بنایا جاسکتا ہے۔

مسئلے کا حل باکس ڈرین اور باکس کل ورٹس

شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق شہر میں نکاسی آب کے مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پائپ ڈرین اور پائپ کل ورٹس کے بجائے باکس ڈرین اور باکس کل ورٹس بنائے جائیں۔ اس کے علاوہ پینے کے پانی کی لائنیں جہاں نالوں کے اندر سے گزر رہی ہیں انہیں باہر نکالا جائے یا صورت حال دیکھ کر ہر علاقے میں الگ الگ نوعیت کے فیصلے کیے جائیں۔ ان پائپس پر جیکٹ (حفاظتی تہہ) چڑھانا مسئلے کا مستقل اور خطرات سے مُبرّا حل نہیں ہے۔ ان کے مطابق فطری آبی گزرگاہوں کو جب اور جہاں بند کیا جاتا ہے۔ 

وہاں شدید نقصانات سامنے آتے ہیں۔ غریبوں پر تجاوزات قائم کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں، لیکن او پی پی کے تجربات بتاتے ہیں کہ امیروں کے علاقوں میں زیادہ تجاوزات ہوتی ہیں۔ غریب اگر تین فیٹ کی تجاوزات قائم کرتا ہے تو امیر تیس فیٹ کی قائم کرتا ہے۔ کلفٹن میں نالوں پر جگہ جگہ امیروں نے تیس تیس فیٹ لمبے چوڑے لان بنا رکھے ہیں۔

تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں گہرے سیور بنانے اور ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کے بجائے باکس کل ورٹس، کم گہرے سیور اور میرین آئوٹ فالز کو اپنایا گیا ہے۔ اس کے لیے ان ممالک نے انجینیرنگ کے معیارات اور طریقے اپنائے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور سوئٹزرلینڈ نے فطری نالوں، ٹرنک مین اور رین واٹرڈ رینج چینلز کوترقی دینے کی قابل عمل مثالیں پیش کی ہیں۔ بھارت میں اندور شہر میں بھی یہ طریقہ اپنایا گیا جس پر اسے آغا خاں ایوارڈ برائے آرکی ٹیکچر دیا گیا ، لیکن ہمارے ہاں اب تک اس حوالے سے عجیب و غریب منصوبے بنائے گئے۔

یہاں125فیٹ چوڑی نہر (کلفٹن) کو خیام کو کہیں ایک فیٹ قطر کے دو پائپس اور کہیں48 انچ قطر کے پائپ میں سمونے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح خِیابانِ اقبال روڈ کے دونوں طرف جو چوڑا نالا تھا اسے 12 تا 18 انچ قطر کے پائپ میں سمونے کی کوشش کی گئی ۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق کراچی میں بارشوں میں اس لیے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ لوگ بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے گٹر کے ڈھکن کھول دیتے ہیں۔ اس طرح گٹر میں ریت اور کچرا بھی چلا جاتا ہے، جسے صاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

فطری نالے بہت قیمتی اثاثہ

ماہرین کے مطابق ہمیں شہر کے سیوریج اور ڈرینج کے مسائل حل کرنے کے لیے فطری نالوں یا ڈرین کو اپنا بہت قیمتی اثاثہ تسلیم کرنا ہوگا، کیوں کہ وہ پورے شہر کو برسات میں بالخصوص پانی سے بچاتے ہیں اور عام دنوں میں شہر کا اسّی فی صد گند آب اور فضلہ ان ہی کے ذریعے سمندر میں جاتا ہے۔

کراچی کے تمام نالے بنیادی طور پر برساتی پانی لے جانے کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن ان میں سارا سال گندا پانی بہتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے ان نالوں میں سلج اور سلٹ جمع ہوتی رہتی ہے، پھر یہ کہ لوگ ان میں کچرا پھینکتے ہیں۔ علاوہ ازیں شہر کے زیادہ تر نالوں پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں ۔ بعض مقامات پر 40 فٹ چوڑا نالہ محض 2 فٹ کا رہ گیا ہے۔نالوں پر تجاوزات بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان لوگوں کو ہٹانا بہت مشکل کام ہے۔ بعض مقامات پر لیز تک حاصل کرلی گئی ہیں۔عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا انہیں ہر سال مون سون کے موسم میں اسی طرح عذاب سے گزرنا اچھا لگتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے عوامی نمائندوں اور تمام متعلقہ فریقین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔

کئی برس سے شہر کے پرانے علاقوں مثلاً لائٹ ہائوس، جوڑیا بازار اور آئی آئی چند ریگر روڈ پر بارش کے بعدصورت حال بہت خراب نظر آتی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں سے گزرنے والے دو بڑے نالوں یعنی سولجر بازار نالے اور سٹی ریلوے اسٹیشن نالے کی صفائی مناسب حد تک نہیں کی جاتی۔

مزید یہ کہ مائی کلاچی بائی پاس کی تعمیر اور پھر وہاں قریب میں واقع اراضی پر پلاٹس بنا کر فروخت کرنے سے مسئلہ بہت گمبھیر ہو گیا ہے، کیوں کہ مذکورہ دونوں نالے اس مقام پرجا کر سمندر میں گرتے ہیں۔ سولجر بازار نالے کا دہانہ پہلے 65 فیٹ چوڑا تھا، لیکن اب تقریباً 35 فیٹ رہ گیا ہے۔ اسی طرح سٹی ریلوے اسٹیشن نالے کا دہانہ پہلے تقریباً 45 فیٹ چوڑا تھا، جو اب کم ہوکر 30 فیٹ رہ گیا ہے۔

ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے بعض حصوں میں بھی برسات کے بعد مسائل پیدا ہونے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سمندر سے زمین حاصل کرکے پلاٹ کاٹے گئے ہیں۔ قیوم آباد کی طرف ڈیفنس اتھارٹی کا نالہ آتا ہے، وہاں بھی سمندر سے زمین حاصل کرنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لیاری ندی اور اردگرد کے علاقوں میں بھی برسات کے پانی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بائی پاس کے ساتھ سو دو سو فیٹ کے فاصلوں پر اِن لیٹ بنائے گئے ہیں۔ 

یہ فاصلہ کم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پانی کم فاصلہ طے کرکے جلد لیاری ندی میں چلا جائے۔ شارع فیصل پر بھی بہت برا حال ہوتا ہے۔وہاں پی ای ایس ایچ کے بلاک نمبر 6میں نالے کو بہت گھما دیا گیا ہے، جس سے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ وہاںکا نالہ منظور کالونی نالے میں گرتا ہے اور منظور کالونی کے نالے کا دہانہ قیوم آباد کے قریب سمندر میں گرتا ہے، وہاں سمندر سے زمین حاصل کرنے کی وجہ سے دہانہ اب محض 32 فیٹ چوڑا رہ گیا ہے۔

آئی آئی چند ریگر روڈ پر ڈرین تو مناسب ہیں، لیکن وہ سٹی ریلوے اسٹیشن نالے اور سولجر بازار نالے سے منسلک ہے، لہٰذا وہاں بنیادی مسائل حل ہونےتک صورت حال یوں ہی رہے گی۔چند برسوں میں منظور کالونی نالہ پختہ کرنے سے بہتری آئی ہے،کلری نالے کو بہتر بنایا گیا ہے اور مچھر کالونی کے پاس سیوریج لائن کو بائی پاس کرکے سیور ٹرنک میں ڈالنے سے مچھر کالونی کے آس پاس کے علاقوں میں صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ 

اورنگی اور بلدیہ ٹائونز میں کورڈ ڈرینز بنانے سے بھی بہتری آئی ہے۔ اس سب کے باوجود نالوں کے ضمن میں اب بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض نالوں کے آرپار یوٹیلٹی سروسز کی لائنز گزر رہی ہیں، خصوصاً پانی کی لائنز، وہ نالوں میں پانی کی روانی کو متاثر کرتی ہیں، انہیں ہٹانا ضروری ہے۔

کراچی کے نالے اور ان کی مجموعی طوالت

(1)سولجر بازار نالا بہ شمول اس کی چار شاخیں(4000 فیٹ)(2)سٹی ریلوے اسٹیشن نالا (10825 فیٹ) (3) اعظم بستی نالا(866 فیٹ) (4)حمود آباد نالا بہ شمول اس کی شاخیں(2700فیٹ)5))نیول کالونی نالا(11258 فیٹ) (6) اورنگی کا مرکزی نالا۔ بنارس چوک تالیاری ندی (19918فیٹ) (7) اورنگی ٹائون نالا (94234 فیٹ) (8) کلری نالا(9526فیٹ) (9)پچر نالا (14700 فیٹ) (10) عیسیٰ نگری نالا اور ویلفیئر کالونی نالا (7794فیٹ)(11) خواجہ اجمیر نگری نالا اور شمالی کراچی سیکٹر11۔ اے کا نالا(14000)(12) بلدیہ نالا نمبر ایک (15715فیٹ)(13)بلدیہ نالا نمبر 2(7000 فیٹ)(14)بلدیہ نالا نمبر تین (7784 فیٹ) (15)شیر شاہ نالا(6603 فیٹ) (16)کالابورڈ نالا (9310 فیٹ)(17)ملیر سٹی نالا (9959فیٹ ) (18) عزیز بھٹی نالا (13856 فیٹ)(19)پیر پگارا روڈ نالا (8877 فیٹ ) (20)کورنگی نالا نمبر ایک اور دو (48496 فیٹ ) (21)ہارون آباد نالا (17753 فیٹ)(22 )حب نالا (23815فیٹ ) (23)شارعِ فیصل نالا (6000 فیٹ)(24)مجاہد کالونی نالا(12500 فیٹ) (25) نہرِ خیام نالا (5629 فیٹ) (26)چوکور نالا (23080فیٹ)(27)حیدری نالا نمبر ایک اور دو (15600 فیٹ) (28)شپ اونر کالج نالا (6575 فیٹ) (29)منظور پیٹرول پمپ تا اسلامیہ کانٹا، ملیر (نزد قائدآباد) نالہ (900 فیٹ)(30 )مسلم راجپوت کالونی نالا (2552 فیٹ)(31) پیٹرول پمپ نالا(3350 فیٹ) (32) قلندریہ نالا (17200 فیٹ)(33)مدینہ کالونی نالا (1299 فیٹ)(34) گلشن اقبال،سیکٹر 13 ڈی کا نالا( 9093 فیٹ)(35 ) پیر آباد نالا (2598 فیٹ) (36) میانوالی کالونی نالا(11238 فیٹ) (37) ضیاء الدین اسپتال نالا(16478فیٹ) (38)کریم آباد نالا (7000فیٹ)(39) واٹر پمپ نالا(5890 فیٹ) (40)نیپا چورنگی نالا (15588 فیٹ)(41)منظور کالونی نالا(11700فیٹ) (42) سو نگل نالا(8660 فیٹ)

کراچی کے موجودہ سیوریج ڈسپوزل سسٹم کو حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے ماہرین کی تجاویز

1) سیویج اور ڈرینج کے موجودہ نظام کو حقیقت تسلیم کیا جائے 

(2) اس نظام کو باقاعدہ دستاویزی شکل دی جائے

(3) سیوریج اور بارش کے پانی کے اخراج کے لیے موجودہ نالوں کو قبول کر کے انہیں بہتر بنایا جائے، صاف کیا جائے اور ان کی چوڑائی کا تحفظ کریں

(4)چوں کہ موجودہ صورت حال میں بارش کے پانی اور سیوریج کی نکاسی کے لیے تمام نالوں کے ساتھ ساتھ علیٰحدہ علیٰحدہ نظام بنانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ گند آب اور بارش کا پانی ساتھ ساتھ چلے گا

(5) برسات کے موسم میں سیوریج اور ڈرینج کو ٹریٹمنٹ پلانٹس سے گزارنے کے بجائے بہ راہ راست سمندر میں ڈال دیا جائے تا کہ شہریوں کو فوری آرام مل سکے۔ یہ واضح رہے کہ یہ کام بہت کم لاگت سے کیا جا سکتا ہے

(6) آہستہ آہستہ تمام نالوں کو باکس کل ورٹس(box culverts)یا ٹرنک (trunk sewers) میں تبدیل کر دیا جائے

(7)  سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس ان مقامات پر لگائے جائیں جہاں نالے سمندر میں گرتے ہیں ۔ موجودہ پلانٹس اور آئندہ لگائے جانے والے پلانٹس کے لیے ڈیزائن، جائے وقوع، لاگت، ان کی دیکھ بھال کے اخراجات اور موجودہ نظام کی درستی کے حوالے سے توجہ دی جائے

(8) فی الوقت بڑے نالوں کے آخری سرے پر سمندر کے قریب تالاب یا ساحلی جھیل بنائی جا سکتی ہے۔

(9) سیوریج ڈسپوزل کے حوالے سے سرکاری اداروں کے کردار اور ذمے داریوں کا ارتکاز ختم کر کے عوام اور امدادِ باہمی کی انجمنوں کو اس کام میں شامل کیا جائے۔ 

مثلاً ٹرنک سیور، نالے، ٹریٹمنٹ پلانٹس وغیرہ حکومت تعمیر کرے اور گھروں کے بیت الخلاء اور گلیوں اور علاقے کی سیور لائن اور کلیکٹر کی دیکھ بھال کا کام عوام کے سپرد کر دیا جائے۔ بہت سی کچّی آبادیوں میں لوگ یہ کام کام یابی سے کر رہے ہیں، دیگر علاقوں میں بھی یہ تجربات کیے جائیں۔

تازہ ترین