• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونانی میں Hagia Sophiaاور ترکی میں Aya Sophiaکے معنی ہیں Wisdom Of God، مقدس دانش یا پاکیزہ شعور رومن شہنشاہ کنٹسٹائن اعظم نے پہلی مرتبہ قسطنطنیہ میں اس عظیم الشان آرتھوڈوکس چرچ کی تعمیر 360عیسوی میں کی جس میں لکڑی کا زیادہ استعمال تھا جسے آگ لگی تو 415میں تھیوڈوس دوم کے ہاتھوں اس کی تعمیر نو ہوئی مگر اب کے بھی چھت لکڑی کی ہی تھی سو وہی مسئلہ پھر پیدا ہو گیا پھر قیصر روم جسٹینین نے 532عیسوی سے 537تک اس چرچ کی تعمیر اس شان و شوکت اور مضبوطی سے کروائی کہ ما بعد کئی مواقع پر اس کی مرمت وغیرہ تو ہوئی جیسے کہ 562میں زلزلے سے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا تو تعمیر و مرمت زیادہ مضبوطی کے ساتھ کر دی گئی۔ اب قریباً پندرہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس تاریخی چرچ کی دیو ہیکل عمارت اسی آن بان اور شان سے ایستادہ ہے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال محترم نے خاکسار کو ہدایت کی تھی کہ دو مقامات کی سیاحت ضرور کرنا ایک آیا صوفیہ اور دوسرے قونیہ میں رقصِ درویش۔ اُسی سال جب ڈاکٹر صاحب کی وفات ہوئی تو استنبول یونیورسٹی کی طرف سے ایک کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو وہاں قیام کے دوران ایک روز دوستوں کے ساتھ اس سیاحتی حب کو وزٹ کرنے نکلے، گھومتے گھماتے جب یہاں پہنچے تو نہ صرف اس کی طویل صدیوں پر محیط تاریخ دماغ میں گھوم گئی بلکہ اس کا پورا اسٹرکچر ہوشربا اور ایسا متاثر کن لگا کہ اگلے روز دوستوں کے بغیر پورا دن ادھر گزارنے کا پروگرام بنایا اور کوشش کی کہ کوئی حصہ ملاحظہ کئے بغیر نہ چھوڑا جائے۔ تصاویر بھی بنائیں، مختلف ممالک بالخصوص مغربی ممالک سے آئے سیاحوں کے تاثرات بھی معلوم کیے جو یہاں آنا ایسے ہی سمجھ رہے تھے جیسے وہ ’’عمرے‘‘ پر آئے ہوئے ہوں۔ آرتھو ڈوکس مسیحیوں کے لئے تو اس کی حیثیت شاید ایسے ہی ہے جیسے ہم مسلمانوں کے لئے کعبے کی۔ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں پڑھیں اور مغربی ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی زبانی سنیں۔ مغربی یورپ سے آئے ہوئے کئی لوگ دوسروں کی طرح لائن میں لگے باری آنے پر مخصوص مقام پر خاص طریقے سے انگوٹھا ڈال کر ہاتھ گھماتے پائے گئے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں بھی منتیں پوری ہوتی ہیں اور ان کی کئی روحانی الجھنوں کا مداوا ہوتا ہے۔ ہم نے اُس مقام کی بھی تصاویر بنائیں جہاں مسیحی اپنے بچوں کو تالاب میں ڈبکی لگواتے ہوئے روحانی پیشوا سے بپتسمہ دلوایا کرتے تھے۔ قیصر روم کی تاج پوشی کا مخصوص مقام بھی قابلِ ملاحظہ تھا۔ آرتھو ڈوکس چرچ کے سربراہ کا عہدہ آج تک یہاں قائم ہے اور وہ اپنے نام کے ساتھ ’’سربراہ کلیسائے قسطنطنیہ‘‘ لکھتا ہے۔ ساحلِ سمندر کی خوبصورتی میں اس عظیم چرچ کے ایک طرف عثمانی سلاطین کے محلات ہیں جو اب میوزیم ہیں جبکہ دوسری طرف عظیم بلیو مسجد ہے۔

اس چرچ کی ہسٹری میں یہ لکھا ہے کہ 537میں جب قیصر روم جسٹینین نے اس کا افتتاح کیا تو بیت المقدس کی طرف دھیان کرتے ہوئے اس کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے ’’اے کنگ سلیمان! آج میں آپ سے بازی لے گیا‘‘۔ مسیحی دنیا کے ایک ہزار سال تک مذہبی و روحانی مرکز کی حیثیت سے پیروکاران میں یہ عقیدہ سرایت کر گیا تھا کہ یہ کلیسا ہر مشکل میں ان کی مدد کریگا۔ کوئی اسے فتح نہیں کر سکے گا۔ 29؍مئی 1453کو جب عثمانی سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ میں داخل ہو رہا تھا تو اتنے زیادہ مسیحی اس کلیسا میں پناہ لیے ہوئے تھے کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ جب فاتحین قسطنطینِ اعظم کے خاص ستون تک پہنچیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ اُترے گا اور انہیں واپس دھکیل دے گا مگر انہیں کیا معلوم کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ اور ’’اے پیر حرم تری مناجات سے بجھے گا شدر کیا‘‘۔ مذہبی خوش عقیدگی سے ہٹ کر یہ کلیسا بلاشبہ تعمیراتی فن کا شاہکار ہے۔ شہنشاہ جسٹینین نے اس کا تعمیراتی سامان کہاں کہاں سے منگوایا اور کاریگروں نے کس آرٹ سے بنایا آرکیٹیکٹ کی مہارت جاننے والوں کے لئے طویل مضمون ہے۔ یوں سمجھیے کہ مابعد ترکوں نے جتنی بھی مساجد بنوائی ہیں یا دیگر تعمیرات ہیں، چاہے سنان نے یا دوسروں نے کاریگری دکھائی ہے ان سب کے سامنے آیا صوفیہ ہمیشہ ایک ماڈل کی حیثیت سے رہا ہے۔ خانہ کعبہ کے برآمدوں اور مسجد نبویؐ کی تعمیرات کو اگر باریکی سے ملاحظہ کریں تو اس کی جڑ آیا صوفیہ میں ملے گی۔

ہمارے آقا آنحضرتﷺ کو قسطنطنیہ کے مسیحی رومیوں کے ساتھ کتنا لگائو تھا جن لوگوں نے قرآن مجید کی ’’سورئہ الروم‘‘ پڑھی ہے وہ اس سے بےخبر نہیں ہیں۔ ابتدائی کلام ملاحظہ ہو الم غلبت الروم... ’’قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند برسوں کے اندر وہ غالب آ جائیں گے اور اس روز خدا کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوش ہوں گے‘‘۔ ہم اس پر الگ سے بحث کریں گے کہ قرآن نے ایرانیوں کے بالمقابل قسطنطنیہ کے ان مسیحی رومیوں کی اتنی واضح حمایت کیوں کی جنہوں نے آیا صوفیہ یعنی شعور کا بول بالا کرنے والا زیر بحث کلیسا تعمیر کیا تھا۔ یہ کلیسا پیغمبر اسلامﷺ کی پیدائش سے محض 34برس قبل دوبارہ تعمیر ہوا تھا۔ 1453سے تاحال ترک مسلمان صرف ایک کلیسا نہیں پورے استنبول کے مالک و وارث ہیں۔ (جاری)

تازہ ترین