• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست جب اخلاقی اقدار کی پٹری سے اُتر جائے تو مخالفین کی توہین میں رعایت نہیں رہتی، نہ اتفاق کا اقبال بلند ہوتا ہے اور مثبت قانون سازیاں بھی کہیں گم ہو جاتی ہیں۔ گر یہ سب عام ہو جائے، ملک و ملت کی خدمت کا باب بھی بند ہی سمجھئے۔ ایسی سیاست کے محض دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں، ایک ہوسِ زر، دوسرا شہرت پسندی۔ ایک بات رہ رہ کر یاد آتی ہے کہ قیادت کوئی سیاسی ہو یا سماجی، تعلیمی یا مذہبی اگر اس کے ہاں رات کو کتاب نہیں کھلتی تو یہ سیاست لفظوں کی جگالی یا ہوائی قلعوں کی تعمیر سازی کے سوا کچھ بھی نہیں! زمانے کے ساتھ چلنا تو قصۂ پارینہ ہوا اب تو اس گلوبل ویلج میں دوڑنا پڑتا ہے۔

جب ریاست میں بےمعنی تقاضے بڑھنے لگیں اور مقصدیت بھی اپنی شاہراہ پر گامزن نہ رہے تو وہ قوت اپنا کردار ادا کرتی ہے جو عنانِ اقتدار کی حامل ہو پس حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ریاست اور انسانی حقوق کی پاداش میں اپوزیشن اور دیگر عوام کو مفاہمت اور مناسبت کے دائرے میں لائے۔ جدید دور میں کوئی حکومت اس وقت منزل تک نہیں پا سکتی جب تک اس کی لیڈر شپ قومی مفاد کے لئے سب کو ایک صفحہ پر لانے سے ناآشنا ہو۔ نان ایشوز کو منظر عام پر لاکر، وزیراعلیٰ پنجاب کی ’’تبدیلی‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر، سندھ جے آئی ٹی پر کسی علی زیدی کا محاذ کھڑا کرنا اتنا بھی فائدہ نہیں دیتا کہ کوئی یہ سمجھے کہ سیاستدان اور جرائم کے درمیان ایک ناجائز رشتہ کا تعلق سمجھایا جارہا ہے کہ یہ بھی کہیں کہیں ہے، لوگ جانتے ہیں کہ یہ ہے۔ پھر بےوقت کی راگنی کیوں؟ یہی دیکھ لیجئے کہ بجٹ جیسے انتہائی سنجیدہ معاملے پر جس کا تعلق ہر شہری کے چولہے سے شروع ہوکر رہن سہن، میل ملاپ، سفر و منزل، لین دین، ترقیات و اصلاحات اور جینے مرنے سے ہے، اس پر اسمبلی فلور پر کتنی گہری سوچ بچار ہوئی؟ سوائے کردار کشی اور ہنگامہ آرائیوں کے علاوہ بجٹ بحث میں رکھا ہی کیا تھا؟ معاشیات کو لخت لخت اور اخلاقیات کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچانے میں پہل حکومت کو کرنی ہوگی اور پیچھے سب کو چلنا ہوگا۔ کسی نے یہ بھی سنا کہ ایک عدالت اعلیٰ کے چیف جسٹس محترم نے فرمایا کہ غیرمنتخب نمائندے مشیر و معاون بن کر قوم کیلئے نہیں کمپنیوں کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟ ذرا اسی پر غور کر لیجئے کہ وزیر ہوا بازی کے پائلٹس کے جعلی لائسنسوںکے بیان سے روزانہ کی بنیادوں پر قوم کو سینکڑوں ملین روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا، اور آخر سول ایوی ایشن کے اعلیٰ حکام نے اپنے وزیر ہی کی بات کو یکسر مسترد کردیا۔ اور وزیرِ موصوف اسمبلی فلور اور سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں، مشکوک اور جعلی، کے فرق پر بَھاشَن دینے پر مجبور ہیں مگر قومی وقار کی جو دھجیاں اڑیں یا اربوں کے اُس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ سیاسی افراتفری میں سب سے زیادہ عوام پسے، کورونا وبا اور ٹڈی دَل کو بالائے طاق رکھ کر بھی بات کریں تو چینی بحران اور آٹا قلت جیسے مسائل کی توقع تھی نہ موقع مگر سیاسی افراتفری اور متعلقہ وزارتوں و محکموں اور ڈویژنوں کی اپنے کام پر توجہ کے بجائے سیاسی افراتفری پر بےجا توجہ تھی اور ایسا ہی پٹرول کے ضمن میں ہوا۔ جانے اسے نیت کی خرابی گردانا جائے یا نااہلی یا پھر کوئی اسے تساہل پسندی کہنا چاہتا ہے تو اُس کی مرضی۔ ہر صورت میں عوام سے یہ سراسر زیادتی ہے۔ مدت سے ہم نے سیاستدانوں کی بیخ کنی کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں بارہا اپنے ہی دام میں صیاد بھی آیا لیکن دیکھا تو محض یہ کہ اس کی گرفت میں مخالف کتنا آتا ہے، کاش تبدیلی والے ہی اسے نیا پاکستان میں تراش خراش لیتے تاکہ اس نیب کے فوائد بڑھ جاتے اور نقصانات کم ہو جاتے، صداقت عامہ کو کہاں تک جھٹلایا جا سکتا ہے؟ پچھلے دنوں انتہائی کردار کشی کا سامنا کرنے والے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاورز پروجیکٹس یا بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا بالآخر وہ باعزت بری ہوئے، اب پھر کوئی اعلیٰ عدالتوں میںاپیل کرے تو اور کتنا قومی نقصان ہوگا؟ پھر میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ جو بےبنیاد کیسوں کی پاداش میں ہورہا ہے اس کو ناانصافی اور اوچھے ہتھکنڈے نہ کہیں تو کیا کہیں؟

ایک نظر یہی دیکھ لیجئے کہ ایک مخصوص طبقہ بشمول کچھ حکومتی عناصر اور کچھ دیگر اس بات پر شاداں ہیں اور غیرواضح کہ بلاول بھٹو زرداری کو ایک دہشت گرد کی جانب سے قتل کی دھمکی دی گئی ہے! جس پر سو فی صد مذمت اور ہم آہنگی کی ضرورت تھی، فکر و عمل اور تشویش و تفتیش کی بھی حکومتی ضرورت تاہم معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ جو، غیرسیاسی، کل بلاول بھٹو زرداری کو کم سن سیاستدان گردانتے تھے آخر آج انہیں وہ اس قدر قد کاٹھ کا مالک لگ ہی گیا اور کسی حد تک ناقابلِ تسخیر بھی کہ اس کے قتل کی بات کی جائے؟ یہ بات اور یہ سوچ ہی گر کہیں پنپ رہی ہے تو یہ سانحہ ہی نہیں قومی سانحہ والی سوچ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ کسی شدت پسند یا کسی رستم نے آبِ بَقا حلق سے نہیں اتار رکھا کہ وہ فانی نہیں رہا۔

سنجیدگی کا ماحول بننے کے بجائے ہر سو رنجیدگی کے بادل منڈلا رہے ہیں، اور ہم سب ملت کے بناؤ کے لئے ایک صفحہ پر ہونے سے قاصر ہیں۔ غیرجمہوری رویہ، غیرسیاسی سوچ اور غیرذمہ دارانہ طرز عمل ملک و ملت کوبگاڑ کی جانب دھکیل رہا ہے، ایسی صورتحال میں حکومت کا فرض بنتا ہے وہ بےجا سیاسی حربوں اور بلاضرورت انتقامی کارروائیوں کو پس پشت ڈالے۔ آہ! کاش کہیں سے یہ شیریں بیانی کانوں کو چھوئے کہ حکومت سنجیدہ سیاست کے آغاز کے درپے ہے؟ اور ملک و ملت کو اس کا حق دے ورنہ جمہوریت، انسانی حقوق، امور صحت اور تعلیم و تربیت انتہائی پراگندہ ہو جائیں گے!

تازہ ترین