• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امسال حج سخت پابندیوں میں ادا کیا جائے گا، بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے یہ انتہائی دُکھ اور تکلیف کی بات ہے۔دراصل عالمی وبا، کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے جس طرح دنیا کو بے بس کر رکھا ہے، یہ تکلیف دہ خبر اُسی کی عکّاس ہے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہوچُکی ہے، جب کہ 5,75000سے زاید افراد اِس موذی مرض کی لپیٹ میں آکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 

سعودی عرب میں جولائی کے وسط تک دو لاکھ، ستّر ہزار افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی۔ متاثرہ شہروں میں مکّۃ المکرّمہ، مدینۃ المنوّرہ، ریاض، طائف اور دمام بھی شامل ہیں۔ یہ شہر کرفیو جیسی سخت پابندیوں سے بھی گزر چُکے ہیں۔وہاں اِتنا سخت لاک ڈائون رہا، جس کا پاکستان میں تصوّر بھی ممکن نہیں، حالاں کہ پاکستان میں بھی پونے تین لاکھ کے قریب افراد اِس وائرس سے متاثر ہو چُکے ہیں۔

یہ تعداد اٹلی سے بھی زیادہ ہے، جو کورونا سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست رہا۔پھر صرف یہی نہیں، بلکہ وسط جولائی کے اعداد وشمار کے مطابق، پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد چین سے بھی بڑھ چُکی ہے۔ اِس پس منظر میں سعودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اِس بار160 ممالک کے شہریوں کو حج کی اجازت دی جائے گی، جن کی تعداد دس ہزار کے قریب ہوگی۔ کورونا کے پھیلائو کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ چین کے شہر، ووہان سے مسافر اُسے لے کر چلے اور دنیا بھر میں پھیلاتے گئے۔ خود پاکستان میں کورونا کا پہلا مریض ایران سے آیا۔عوام ابھی تک تفتان کے قصّے نہیں بھولے۔ سعودی عرب نے جو ایس اوپیز طے کیے ہیں، اُن پر ضرور عمل ہوگا، کیوں کہ اُس کا سابقہ ریکارڈ ایسا ہی ہے۔

اصل سوال تو ہمارا ہے کہ ہم عیدالاضحٰی کس طرح کی پابندیوں میں گزارتے ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں ایس اوپیز کی پیروی کا عوامی ریکارڈ قابلِ مذمت ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے زاید ہے اور اسی اعتبار سے جانوروں کی قربانی بھی بہت بڑی تعداد میں کی جاتی ہے۔وزیر اعظم، عمران خان بار بار وارننگ دے چُکے ہیں کہ ’’بڑی عید پر عوام نے بے احتیاطی کی، توحالات بہت زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔‘‘ماہرین اور ڈاکٹرز ہاتھ جوڑ کر التجاکرتے ہوئے عوام کو یاد دِلا رہے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر کا خطرہ سَر پر منڈلا رہا ہے اور یہ کہ عید کے بعد سردیوں کا بھی آغاز ہوجائے گا، جو کورونا کے لیے سازگار موسم ہے۔

اچھا تو نہیں لگتا کہ دو ماہ قبل منائی جانے والی عیدالفطر کے دَوران اپنے ہی عوام کے غیر ذمّے دارانہ رویّوں کا ذکر کیا جائے، مگر اِس پر بات کرنا اِس لیے ضروری ہے کہ مُلک و قوم عید پر کی گئی بے احتیاطیوں کی سزا ابھی تک بھگت رہے ہیں۔اسمارٹ لاک ڈائون کی کام یابی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود کورونا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ باقی دنیا نے طے کرلیا تھا کہ کورونا کا پیک کب آئے گا اور کب نیچے آنا شروع ہوگا، تاہم ہمارے ہاں اِس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ بس یہی کہہ دیا جاتاہے،’’ سب ٹھیک ہو رہا ہے۔‘‘اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔ کون بیماری اور وہ بھی کورونا جیسی مصیبت کی زَد میں آنا چاہتا ہے۔ حکومتی اعلانات کے مطابق، کورونا کی شدّت میں کمی آئی ہے اور وہ اِس کا سبب ٹارگٹڈ لاک ڈائون کو قرار دیتے ہیں۔

شاید کسی علاقے میں ایسا ہوا ہو، لیکن وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ’’ جلدی میں فتح کا اعلان مناسب نہ ہوگا۔ہر دن کو غور سے دیکھنا ہوگا۔‘‘ مریضوں کی تعداد میں کمی یقیناً ایک اچھی خبر ہے، تاہم ڈاکٹرز اور غیرجانب دار ماہرین اِس کی ایک وجہ ٹیسٹنگ میں کمی کو بتاتے ہیں۔

ایک تو بیرونِ مُلک سے آنے والوں کو کُھلی چُھوٹ دے دی گئی ہے۔وہ ہوائی جہاز سے آئیں، تفتان سرحد سے یا سمندر کے راستے، کسی طرح کے ٹیسٹ یا پابندی کی کوئی ضرورت نہیں۔قبل ازیں بیرونِ مُلک سے آنے والوں کا ریکارڈ رکھا جارہا تھا، اگر کوئی کورونا سے متاثر ہوتا، تو اُسے ٹریس کرکے پورے محلّے کو قرنطینہ کردیا جاتا، اب ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ ایسا نہ کرنے کی یہ عجیب سی وجہ بتائی گئی ہے کہ’’ خود مُلک میں ایک دوسرے سے متاثر ہونے والوں کی تعداد97 فی صد ہوچُکی ہے، اِس لیے اب بیرونِ مُلک سے آنے والے مریضوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ حالاں کہ کسی بھی مُلک کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں، وہاں آنے والا مسافر پندرہ روز کے قرنطینہ میں چلا جاتا ہے، جو اُس کے لیے اور اس کے قریب رہنے والوں کے لیے ضروری سمجھا گیا۔ 

پاکستان میں اندرونِ مُلک بھی ٹیسٹنگ بہت کم کردی گئی ہے، حالاں کہ بارہا اعلان کیا گیا کہ ٹیسٹنگ کی سہولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔علاوہ ازیں، کورونا وائرس اب دنیا کے لیے کوئی نئی بیماری نہیں رہی، اِس کے ہر ہر پہلو پر ڈاکٹرز اور سائنس دان مسلسل تحقیق کر رہے ہیں اور اِس کی ایک واضح شکل اُن کے سامنے بھی آچُکی ہے کہ اِس سے کیسے نمٹا جائے؟ کہاں انتظامی اقدامات ضروری ہیں؟ تو کہاں طبّی سہولتیں بروئے کار لانی ہیں؟ لیکن یہ سب اُسی وقت ممکن ہے، جب ٹیسٹنگ زیادہ سے زیادہ کی جائے۔امریکا میں ہر روز ہزاروں نئے متاثرین سامنے آ رہے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں مرض بے قابو ہوچُکا ہے، بلکہ ہر شخص ٹیسٹ کی سہولت سے فائدہ اُٹھا کر اپنی صحت سے متعلق تسلّی کر رہا ہے۔

اِس کے بعد یہ طے کرنا کہ کس قسم کی پابندیاں یا نرمیاں کی جائیں، حکومت اور ماہرین کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔اگر ہم ٹیسٹ ہی نہیں کریں گے، تو کسی قسم کی حکمتِ عملی بھی کیسے مرتّب کر پائیں گے؟ریکارڈ نہ ہونے پر محض اندازوں سے فیصلے کرنے پڑیں گے کہ کن علاقوں اور کن دنوں میں کورونا کے اثرات زیادہ ہوسکتے ہیں؟ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اُس کی کورونا پالیسی کی دنیا بھر میں تعریف ہو رہی ہے، بلکہ بہت سے ممالک تو اسمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنا بھی رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق حکومتی دعوے اپنی جگہ، مگر ایسے شواہد سامنے نہیں آئے کہ دنیا پاکستان کی پالیسی اپنا رہی ہو۔ اگر ایسا ہو رہا ہوتا، تو دنیا میں چین،اٹلی، جرمنی، نیوزی لینڈ،جاپان اور ویت نام کی طرح پاکستانی ماڈل پر بھی بات ہورہی ہوتی۔ 

وزیرِ اعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں وہ کورونا کی تباہ کاریوں کے باوجود معیشت کا پہیّہ رواں رکھنے میں کام یاب رہے۔یہی دعوے اسٹیٹ بینک کے گورنر اور مشیرِ خزانہ بھی کر رہے ہیں۔یقیناً اِس ضمن میں وہ بہتر ہی جانتے ہوں گے، لیکن عالمی اور مُلکی مالیاتی اداروں کے معیشت کے بارے میں اعشاریے منفی جارہے ہیں۔البتہ ،حکومت کی یہ کام یابی ضرور قابلِ داد ہے کہ اس نے قرضوں کی ادائی مؤخر کروالی، جس سے معاشی اسپیس مل گیا۔

اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیرِ اعظم، عمران خان بڑی ثابت قدمی سے اپنی کورونا پالیسی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ماہر اور عالمی ادارے کی رائے اُنہیں متاثر نہیں کرسکی، اِسی لیے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کی پالیسی کے نتائج اچھے ہیں، لیکن اِس مرتبہ خود وزیرِ اعظم بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ بقر عید پر غیر معمولی احتیاط ضروری ہے۔ وہ میٹھی عید پر عوام کے غیر ذمّے دارانہ رویّوں کی شکایات بھی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں کورونا کے پھیلائو میں تیزی دیکھی گئی۔عوام ایس او پیز کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جس طرح بازاروں میں اُمڈ آئے تھے، اُس سے حکومت بھی پریشان ہوگئی۔اسی بے احتیاطی کے سبب عید کے بعد کورونا کے متاثرین اور اموات کی تعداد دُگنی ہوئی۔

میڈیا میں شور مچا، مستند تجزیوں کے حوالے آنے لگے کہ کہیں متاثرین کی تعداد اگست تک بارہ لاکھ تک نہ پہنچ جائے۔عید کے بعد اسپتالوں پر دبائو میں اضافہ ہوا،یہاں تک کہ مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز اور بیڈز کا حصول کسی معرکے سے کم نہیں رہا۔ اس کے علاوہ، وہ ادویہ جو کورونا کے علاج میں کارگر بتائی جاتی ہیں، مارکیٹ سے غائب ہوگئیں۔ ریم ڈیسویر نامی دوا تو پانچ لاکھ روپے تک میں فروخت ہوئی اور وہ بھی منّت سماجت کے بعد۔عوام کو اس سے سبق سیکھتے ہوئے اب عیدالاضحٰی پر اس طرح کی صُورتِ حال پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔

حکومت اور این ڈی ایم اے نے قربانی کے لیے ایس اوپیز طے کیے ہیں اور وزیرِ اعظم عوام سے اُن پر عمل کی درخواست کر رہے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسلسل اجتماعات کے مواقع آرہے ہیں۔گو کہ اجتماعات کے حوالے سے سخت پابندیاں ہیں،لیکن کسی بھی جگہ چلے جائیں، یوں لگتا ہے کہ مُلک میں کسی بھی جگہ کورونا کا گزر تک نہیں ہوا۔نوجوان سوشل میڈیا پر کورونا کے حوالے سے بحث مباحثہ تو خُوب کرتے ہیں،لیکن اُنھوں نے اپنے اُن فرائض کی ادائی میں ذرّہ برابر ذمّے داری کا مظاہرہ نہیں کیا، جس کی کورونا جیسی وبا کے موقعے پر اُن سے امید تھی۔

اگر وہ آگے بڑھ کر ایس اوپیز پر عمل درآمد کرتے اور کرواتے، تو تین چوتھائی مسئلہ تو اسی سے حل ہوجاتا۔ ویکسین کی ایجاد، دوا کی دریافت اور اس بیماری کے جاننے کے معاملات کا کام تو دنیا بھر میں ہو ہی رہا ہے۔جب ہوجائے گا، تو ہم بھی استعمال کر لیں گے۔بقر عید پر صرف خود ہی نہیں، اردگرد کے لوگوں، اپنے محلّے اور گلی میں بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کروانا ہے، جو کچھ اِتنا مشکل بھی نہیں۔ایک عام مزدور اور رکشے والا بھی آج کل اسمارٹ فون استعمال کرتا ہے، اِس لیے یہ کہنا کہ ہماری ناخواندہ آبادی تک ایس اوپیز اور احتیاطی تدابیر نہیں پہنچ سکیں، محض خود فریبی ہے۔

بھلا یہ جاننے میں کتنی دیر لگتی ہے کہ ماسک پہننا چاہیے، ایک دوسرے سے کم ازکم تین فِٹ دُور رہنا ضروری اور زیادہ سے زیادہ گھر رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ غریب دیہاڑی دار اور کم آمدنی والوں کی روزی کمانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، تو کیا یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے کام کے بعد اضافی میل ملاپ میں کورونا جیسی عالمی وبا کے دنوں میں بھی کمی نہ لائیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ قوم کس قیمت پر اُنہیں روزی کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔ اب ماسک چند روپے میں مِل جاتا ہے، پھر ہاتھ چار پانچ بار دھونا بھی کوئی ایسی سختی نہیں، جس پر عمل نہ کیا جاسکے۔ دیکھا جائے، تو اجتماعات سے پرہیز بھی ناممکنات میں سے نہیں،یہ صرف چند مہینوں کی بات ہے۔

ہاں! یہ الگ بات کہ اِس خوف ناک وبا کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، تو پھر جیسے چاہیں رہیں، لیکن اِس صورت میں ہم باقی دنیا سے کٹ جائیں گے، کیوں کہ وہاں تو کورونا کنٹرول میں آتا جارہا ہے، تو پھر وہ کسی دوسرے مُلک کے کورونا میں مبتلا شہری کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے کی اجازت کیوں دیں گے؟ بقر عید پر صفائی بھی ہمیشہ ہی سے ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔کسی بھی محلّے میں چلے جائیں، الائشوں سے اُٹھنے والی بدبو کے سبب دو منٹ کھڑا رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔پھر یہ کہ بچّوں کو گھنٹوں جانوروں کے ساتھ پِھرانا کس جگہ فرض بتایا گیا ہے۔

اب بازار بھی سات بجے کی بجائے دیر تک کُھلے رہتے ہیں اور پولیس صرف چکر لگانے پر اکتفا کر رہی ہے۔ بھرے بازاروں میں شاذ ونادر کوئی ماسک پہنے نظر آتا ہے۔بچّے اور بزرگ روایتی جوش و جذبے کے ساتھ مویشی منڈیوں کا رُخ کر رہے ہیں کہ سوشل ڈسٹینسنگ کی بات مذاق لگنے لگی ہے۔ وہاں کھوے سے کھوا چِھل رہا ہے۔پچھلی بار کی طرح اب بھی گلیوں میں قربانی کے جانور کھڑے ہیں۔لوگ کچھ سُننے، سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔

عالمی ادارۂ صحت نے ایبولا وائرس کا بھی الرٹ جاری کردیا ہے، جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اور یہ بھی ایک جان لیوا مرض ہے ۔ڈینگی کا موسم بھی سَر پر ہے، جب کہ پنجاب میں اِس کے کیسز رپورٹ بھی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر واقعی حکومت نے اپنی بہترین پالیسی سے کورونا کنٹرول کرکے قوم پر احسان کر ہی دیا ہے، تو اب لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس احسان کو اُتارنے کے لیے وزیرِ اعظم کی باتوں اور تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔اُنہوں نے بڑے مان اور اعتماد سے اپنے عوام سے اپیل کی ہے، تو اُن کا بھرم ہی رکھ لیجیے۔

تازہ ترین