• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
المیہ یہ نہیں کہ اقدار و روایات جیسے الفاظ بانجھ ہوتے جا رہے ہیں نہ ہی اس بات کا رنج ہے کہ اخلاقیات جیسی گمنام و بے آسرا قبروں کو مجاور دستیاب نہیں…حیف تو اس بات پر ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت سے لے کر گوالے کے دودھ تک ہر چیز میں ملاوٹ ہے یہاں تک کہ ”دیسی لبرلز“ بھی جعلی ہیں۔ داڑھی مونچھیں کٹوا کر روشن خیالوں میں نام لکھوانے والے محض وضع قطع میں لبرل ہیں ورنہ اُن میں لبرل جیسی کوئی بات نہیں۔ چونکہ یہ نام نہاد لبرل قرآن کی تاویل نہیں مانتے‘ احادیث پر نکتہ چینی کرتے ہیں‘ اسلام کے نام سے بدک جاتے ہیں اس لئے آج کے کالم میں محض مغربی مفکرین کی آراء و استدلال تک محدود رہوں گا۔ فرینکلن ڈی روز ویلٹ سے کسی نے پوچھا‘ منصب صدارت کے لئے کیا اوصاف درکار ہیں؟ صدر کو صاحب کردار ہونا چاہئے یا انتظامی صلاحیتیں زیادہ ضروری ہیں؟ امریکی صدر نے بلا توقف جواب دیا ”کریکٹر زیادہ ضروری ہے‘آپ امور مملکت چلانے کے لئے ذہین و فطین مشیروں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں مگر ایمانداری و دیانتداری کسی سے مستعار نہیں لی جا سکتی“ یعنی صادق و امین ہونا قیادت کی شرط اول ہے مگر ہم کئی ہفتوں سے آئین کے آرٹیکل 63,62 کا تمسخر اڑا کر خود کو لبرل اور آزاد خیال ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد کے ناظم الدین روڈ پر واقع محمد علی درانی کی اقامت گاہ پر کئی سینئر صحافی جمع تھے۔ بات شراب خانہ خراب کی طرف چل نکلی۔ محمد علی درانی نے ازراہ تفنن کہا‘ اس پر میڈیکل ہونا چاہئے جس طرح کھلاڑیوں کا ڈوپ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ میں نے بصداحترام عرض کیا‘ درانی صاحب 63,62 کا مقصد یہ تو نہیں کہ لوگوں کے منہ سونگھتے پھریں۔ اس آرٹیکل کی روح تو وہی ہے جو اسلام کا فلسفہ ہے یعنی ٹوہ لگا کر گناہ گاروں کو ٹکٹکی پر نہ چڑھایا جائے صرف اس بدکردار کو نشان عبرت بنایا جائے جو علی الاعلان شریعت کی حدود کو توڑے اور خود اپنا بھانڈہ پھوڑنے پر آجائے۔
کوئی شرابی ہے‘ زانی ہے‘ فریبی ہے‘ جھوٹا ہے لیکن کوئی ثبوت دستیاب نہیں تو اس پر 63,62 کا اطلاق ہرگز نہیں ہوتا۔ لیکن کوئی فلور آف دی ہاوٴس پر شراب کی ممانعت کے خلاف اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا ہے‘کسی کی دروغ گوئی جمشید دستی کی طرح عیاں اور ثابت ہو جاتی ہے‘کسی کے بدعنوان ہونے کے ثبوت مل جاتے ہیں تو اسے الیکشن لڑنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ تو ریٹرننگ افسروں کی کج فہمی اور غیر دانشمندی تھی کہ غیر متعلقہ سوالات کر کے ”دیسی لبرلز “ کی توپوں کا رخ اپنی طرف کر لیا ورنہ کبائر گناہ سے اجتناب تو ایک شرط ہے دوسری اور بنیادی شرط تو صادق و امین ہونا ہے جس کی طرف فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے نشاندہی کی۔ قائداعظم کا سب سے بڑا وصف یہی تھا کہ وہ صادق و امین تھے اگر ہمارے دیسی لبرلز انہیں رول ماڈل سمجھتے ہیں تو قائداعظم کی کتاب زیست کے اوراق ہی پلٹ کر دیکھ لیں۔ ہاں وہ منافق نہیں تھے‘ ہمارے موجودہ سیاستدان کی طرح شعبدہ باز نہ تھے کہ سندھ میں گئے تو سندھی ٹوپی اور اجرک پہن لی‘ پنجاب میں جلسہ ہوا تو پگ سر پر رکھ لی لیکن ان کی صداقت و امانت کی گواہی تو اغیار بھی دیتے ہیں۔ صوم و صلوة کے پابند نہ تھے اور آرٹیکل 63,62 میں ایسی کوئی تصریح ہے بھی نہیں ہاں البتہ سچے دل سے اسلام کے پیروکار تھے ان کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کی تو اسے ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی سے نکال دیا مرتے دم تک اس کی صورت نہ دیکھی اگر اب بھی کوئی عقل کا اندھا 63,62 کی مخالفت میں یہ کہتا ہے کہ قائداعظم ان شرائط پر پورا نہیں اترتے اور نااہل قرار پاتے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے ‘
جوناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
ایک بودی دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ یہ کیسا نظام ہے جس کے تحت جنرل مشرف کے کاغذات کراچی سے مسترد ہو جاتے ہیں اور چترال سے منظور کر لئے جاتے ہیں یہ نظام بھی انہیں دیسی لبرلز کی مہربانیوں سے قائم و دائم ہے جہاں جج انصاف کے تقاضوں کے تحت فیصلے نہیں کر سکتے بلکہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں اگر کوئی ووٹر اعتراض داخل کرتا ہے اور اس کے حق میں شواہد فراہم کرتا ہے تو ایسی صورت میں ہی ریٹرننگ آفیسر کاغذات مسترد کر سکتا ہے وگرنہ کوئی ایسا شخص بھی کاغذات لے کر آ جائے جس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل ہو اور وہ وہیں بیٹھ کر پینا شروع کر دے تو جج اس کے کاغذات نامزدگی مسترد نہیں کر سکتا۔ تمسخر و استہزا کے نشے میں چور معترضین مسرت شاہین کی اہلیت پر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ کیسا نظام ہے‘ یہ کیسا معیار ہے کہ ایک ناچنے گانے والی کے کاغذات نامزدگی منظور ہو جاتے ہیں ۔میرا استدلال یہ ہے کہ وہ گھنگھرو پہن کر ناچتی ہے‘ ٹھمکے لگاتی ہے تو کیا ہوا‘ غیر ملکی آقاوٴں کے اشاروں پر ناچنے والوں کی طرح منافقت کا لبادہ تو نہیں اوڑھتی۔ میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی ہوس بجھاتی ہے ناں‘عوام کی جاگتی آنکھوں کے خواب تو نہیں چراتی۔ مسرت شاہین کہلاتی ہے‘ اپنے نام کے ساتھ مولانا یا علامہ کا لاحقہ تو نہیں لگاتی۔ فلم بینوں پر بجلیاں گراتی ہے‘ قومی خزانہ تو لوٹ کر نہیں کھاتی۔ پھر بھی کسی کو اس کی اہلیت پر اعتراض تھا‘ کسی کے پاس ناقابل تردید ثبوت تھے تو متعلقہ ریٹرننگ آفیسر سے رجوع کر لیتا اور اس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو جاتے۔
دنیا کے ہر ملک میں جانچ پڑتال کا یہ نظام موجود ہے۔ امریکی صدر نکسن 63,62 کا شکار ہوئے۔ آپ نے یہ تو پڑھا ہوگا کہ نکسن کو واٹر گیٹ لے ڈوبا لیکن بیشتر لوگوں کو معلوم نہیں کہ نکسن پر 63,62 کا اطلاق ہوا۔ نکسن کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا۔ واٹر گیٹ اس عمارت کا نام ہے جہاں اس کی حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے بعض لوگوں نے چپکے سے اس دفتر پر شب خون مارا اور چند اہم فائلیں چرا لیں کانگریس کی ایک کمیٹی نے جب نکسن سے پوچھا کہ آپ کو اس واقعے کا کب علم ہوا تو نکسن نے جھوٹ بول کر جان بچائی۔ چونکہ نکسن کی تمام کالز کا ریکارڈ دستیاب تھا اور ایک ٹیپ سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ نکسن کو اس واقعے کا پہلے سے علم تھا لہٰذا دروغ گوئی پکڑی گئی۔ جھوٹ بولنے کی پاداش میں مواخذے کی کارروائی شروع ہونے لگی تو نکسن نے روتے ہوئے وائٹ ہاوٴس کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ دیا۔ برطانیہ میں بعض اخبارات نے2009ء میں ایک اسکینڈل بے نقاب کیا جس میں ان ارکان پارلیمینٹ کی نشاندہی کی گئی جنہوں نے قومی خزانے سے لوٹ مار کی۔ ایک رکن پارلیمینٹ Ben Chapman نے اپنے رہن شدہ گھر کا سود ادا کرنے کے لئے 15000پاوٴنڈ کلیم کئے حالانکہ اس سے پہلے ہی ان کا گھر کلیئر ہو چکا تھا اور بنک کو ادائیگی کی جا چکی تھی لیکن جب وہ خائن ثابت ہوئے تو نہ صرف مستعفی ہونا پڑا بلکہ سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنا پڑا۔ لیبر پارٹی کے سابق چیئرمین Ian Mccartney اپنے گھر میں اقامت پذیر تھے لیکن انہوں نے خود کو کرایہ دار ظاہر کر کے رینٹ کی مد میں 15000پاوٴنڈ کلیم کئے تھے لہٰذا انہیں صادق و امین نہ ہونے پر دارالعوام سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا اور سیاست سے ریٹائر کر دیا گیا۔ برطانوی وزیر داخلہ Jacqui Smith کی مثال سن کر تو آپ دنگ رہ جائیں گے اس بیچاری کو اس لئے خائن قرار دے دیا گیا کہ اس کے شوہر جو کہ معاون خصوصی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے انہوں نے 2فلمیں دیکھنے کے لئے سینما سے10 پاوٴنڈ کی جو ٹکٹیں خریدیں ان کی ادائیگی قومی خزانے سے کی گئی۔ اس اسکینڈل کی زد میں آنے والے 20/ارکان پارلیمینٹ 4 وزراء اور اسپیکر اسمبلی نے ازخود مستعفی ہو کر سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا، کیوں کہ وہ اگلا انتخاب لڑنے کی کوشش کرتے تو 63,62 کا اطلاق ہونے پر نااہل قرار دے دیئے جاتے۔ 63,62 تو دنیا کے ہر مہذب ملک میں کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے مگر ”ولایتی“ شراب پینے والے دیسی لبرلز اسے اسلام اور ضیاء الحق کی عینک سے دیکھ کر خوف کھاتے ہیں۔
تازہ ترین