• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر سینیٹ کے قیام کا فیصلہ، خطے سے تعلق رکھنے والے دانشوروں پر مشتمل ہوگی

‎کشمیر کے مسئلہ پر گذشتہ سات دہایوں سے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے اثرات رہے ہیں۔ چین کے کشمیری علاقے لداخ میں آنے کے بعد کشمیر کا تنازعہ اب محض بھارت و پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں دلچسپی لینے والی حکومتوں اور اداروں کی تعداد بڑھنے کے امکانات زیادہ واضح ہو گئے ہیں۔ 

 جو بڑی طاقتیں اب تک خاموش تھیں انہوں نے بھی اس تازہ پیشرفت میں از سر نو دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے بھارت اور پاکستان اور چین اور بھارت کے درمیان مصالحت کرانے کی پیشکش روس کو بھی متوجہ کر رہی ہے۔ امریکی پیشکش سے دہلی اسلام آباد اور بیجنگ میں مکس سگنل گئے ہیں۔

‎باخبر ذرائع کے مطابق گذشتہ ہفتہ امریکہ اور کینیڈا میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ کشمیر گلوبل کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہو ا، جس میں کشمیر سینیٹ کے قیام کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا۔

یاد رہے کہ کشمیریوں نے سینیٹ کے قیام کے سلسلہ میں اس سال 28 مارچ کو ڈیلاس میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا علان کیا تھا، جس میں کشمیر کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک سے 200 سے زائد مندوبین نے اپنی شرکت کنفرم کی تھی۔ مگر کرونا کی عالمی وبا اور بین الاقوامی پروازوں کی منسوخی کے سبب یہ کانفرنس ملتوی کر دی گئی تھی۔

گلوبل کونسل کے ایک عہدیدار کے بقول اس التوا کی وجہ سے کشمیر کے اندر لوگوں سے رابطوں اور مشورے کرنے اور ہوم ورک کرنے کا مزید وقت ملا۔ گلوبل کونسل نے سینیٹ کی مرحلہ وار تشکیل کرنے کا شیڈول جاری کیا ہے اس کے مطابق تیسرے مرحلہ میں منتخب سینیٹرز کو ڈیلاس کانفرنس میں مدعو کیا جائے گا۔

‎ڈیلاس میں قائم ساؤتھ ایشیا ڈیمو کریسی واچ سے وابستہ ایک عہدیدار نے،  جو کشمیر کے حالات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوے کہا کہ پہلی بار کشمیری درست سمت میں ایک بڑا قدم اٹھا رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے اثرات سے آزاد کوئی ایسا سیاسی عمل جس کے نتیجہ میں یہ سینیٹ وجود میں آئے گی ممکن ہو گا؟ کیا بھارت کی حکومت کشمیر گلوبل کونسل کو سرینگر، جموں، لداخ اور پاکستان کی حکومت مظفر آباد اور گلگت میں سینیٹرز کے انتخاب کے لیے کنونشن کانفرنسیں منعقد کرنے کی اجازت دیگی؟

‎گلوبل کونسل کی ویب سائٹ دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں زیادہ تعداد مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں خواتین کی بھی نمائندگی موجود ہے۔ کشمیریوں کے اس گروپ کے زیر انتظام بنائی  جانے والی مجوزہ سینیٹ کا دائرہ آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک ہو گا۔ یہ بات بھارت کے علاوہ پاکستان کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ چونکہ پہلی دفعہ کوئی ایسی تنظیم سامنے آئی ہے جو سرینگر سے مظفر آباد کی جانب سیاست کا رخ موڑ رہی ہے۔

‎کشمیر گلوبل کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے صدر فاروق صدیقی جن کا تعلق سرینگر سے ہے نے بتایا کہ کشمیر سینیٹ ریاست جموں و کشمیر کے تمام خطوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے اچھی شہرت کے حامل صاحب الرائے،   ذہین ترین دانشوروں پر مشتمل ہو گا۔ یہ ادارہ خطہ میں امن و ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک تعمیری کردار ادا کرے گا۔

‎اسی گروپ سے وابستہ اور بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ممتاز کشمیری رہنما راجہ مظفر، جو ڈیلس کانفرنس کے میزبان ہیں اور جن کا تعلق ریاست جموں کشمیر کے دونوں جانب سے ہے نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے  فیصلے کی چیدہ چیدہ تفصیلات بتائیں۔ اور گفتگو میں اس تاثر کی نفی کی کہ گلوبل کونسل کو کسی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 اگست 2019  کے بھارتی حکومت کے جارحانہ اقدامات، دفعہ 370  کے خاتمہ نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا کہ ہم اپنے طرز اور فکر و عمل میں تبدیلیاں لائیں۔ انہوں نے کشمیریوں کو اس ایک نکتہ پر متحد ہو جانے کی اپیل کی کہ اس دفعہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر قانونی، سیاسی، تاریخی اور اخلاقی طور آزاد و خود مختار ہو گئی ہے۔

 ہمارا مسئلہ اب کسی ملک سے الحاق کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ سیدھا سادا دو کروڑ زندہ انسانوں کی اپنی زندگی کی بقا اور آزادی کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا مجوزہ کشمیر سینیٹ اپنا کیس دنیا کے سامنے خود رکھے گی۔

‎گلوبل کونسل کے اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں سرینگر، جموں، لداخ، مظفر آباد، گلگت بلتستان، لندن، برسلز، سڈنی، ریاض، متحدہ عرب امارات، ٹورنٹو اور نیو یارک اور ڈیلس ٹیکساس میں کنونشنز کانفرنسیں ہوں گی جن میں سینیٹرز کے انتخاب کو عملی اور حتمی شکل دی جائے گی۔

 بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر سے منتخب سینیٹرز کے ناموں کا اعلان وہاں کے سینیٹرز کی اپنی رضاکارانہ رضا مندی اور ان کی اپنی سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظرکیا جاے گا۔ ایسی صورت میں متبادل کوئی مناسب بندوبست بھی کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلہ میں تمام ریجنز سے منتخب سینیٹرز کے ساتھ ورچیول کانفرنسز ہونگی، تیسرے مرحلے میں ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ہدایات اور سفری پابندیاں اٹھنے کے ساتھ ہی امریکہ کے شہر ڈیلس میں کانفرنس منعقد کی جائیگی۔

تازہ ترین