• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالباًآج کراچی کیلئےبہترین حل ہےکہ کیونکہ ’روشنیوں کا شہر‘ سیاسی عزم کی کمی اورکمزور بلدیاتی نظام کی وجہ سے اپنا شاندار ماضی بحال کرنےاوراپنےبنیادی مسائل یعنی پانی، بجلی، سیوریج، ٹرانسپورٹ،ماحول اوردیگربنیادی شہری سہولیات کو حل کرنےکےقابل نہیں ہوسکتا۔

سیاسی اسٹیک ہولڈرزکیلئےنیاچیلنج موجودہ بلدیاتی نظام کی 31اگست کو تحلیل کےبعد الیکشن کمیشن کی ہدایات کےمطابق حلقہ بندیوں کےبعدنئے انتخابات ہونےتک ’ایڈمنسٹریٹرز‘کی تعیناتی پرسامنے آئےگا۔ انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع نےانکشاف کیاہے کہ سندھ حکومت نے سیٹوں اور یونین کونسلزمیں اضافے پر کچھ معاشی تحفظات کااظہار کیاہے لیکن آئندہ انتخابات سےقبل بلدیاتی نظام میں کچھ تبدیلیوں پر غور کیاجارہاہے۔

اگررواں سال اکتوبریانومبرمیں یا2021کےوسط تک انتخابات نہیں ہوتےتواس بات کا یقین ہےکہ یہ کراچی میں آئندہ عام انتخابات کیلئےفیصلہ کن ماحول تیار کرسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیوایم، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگرجیسے جماعتِ اسلامی، پاک سرزمین پارٹی اور تحریک لبیک پاکستان، جس نے2018میں ووٹ لےکرکئی لوگوں کوحیران کردیاتھا، کے بڑے امیدواروں کےدرمیان دوڑہوگی۔

2018میں پی ٹی آئی نےقومی اسمبلی کے14اور صوبائی اسمبلی کے22 حلقوں میں کامیابی حاصل کی اور کراچی کی واحدبڑی جماعت بن کرسامنے آئی، وہ پُراعتماد ہےکہ مئیرکی سیٹ پربھی کامیابی حاصل کرےگی۔

پی ٹی آئی ایم پی اےخرم شیرزمان نے اتور کو مجھے بتایاکہ ہم پہلے ہی آئینی اور پارلیمانی بورڈ تشکیل دے چکے ہیں اور بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کیلئے پوری کوشش کریں گے۔

ہم پی پی پی کو انتخابات میں دیر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کتنےاہم ہوں گے کیونکہ ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز نے زیادہ کام نہیں کیا ان کاماننا ہےکہ اگر وہ بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو کام کریں گے۔

اسی طرح ایم کیوایم (پاکستان)کیلئے بھی یہ آخری موقع ہےکیونکہ وہ 2013میں قومی اسمبلی کی 17سیٹوں سے 2018میں 4 سیٹوں پر آگئےلیکن گزشتہ بلدیاتی انتخات میں کامیابی حاصل کی وہ بھی پُراعتماد ہیں کہ واپس آئیں گےاورمئیرکی سیٹ حاصل کریں گے۔

پی ایس پی چیئرمین اور سابق میئرسید مصطفیٰ کمال جنھوں نے2018میں اپنی پارٹی کی شکست کے باوجود پُراعتمادہیں کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائیں گےاوردوڑمیں شامل رہنےکیلئےسخت محنت کررہےہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی جو کراچی میں کبھی مئیرکی سیٹ نہیں جیتی اور 2018کے انتخابات میں لیاری میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار کراپنی اہم سیٹ بھی کھوبیٹھی وہ بھی لیاری،ملیر،بلدیا میں واپسی کی تیاری کررہی ہے تاکہ دوڑ میں شامل رہے۔ جماعتِ اسلامی جس نے ماضی میں بلدیاتی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی اور دوبارمئیر کی سیٹ حاصل کی وہ دوبارہ اس پوزیشن کوحاصل کرنے کیلئے سخت محنت کررہی ہے۔ لیکن کیا وہ کوئی فرق پیدا کرسکتے ہیں؟

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ تحریکِ لبیک پاکستان 2018انتخابات کی طرح حیران کن ہوسکتی ہے اگرچہ انھوں نے صرف دو صوبائی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کیں لیکن ان کےامیدواروں نےہرحلقے بشمول لیاری سے15سے20ہزار ووٹ حاصل کیے وہاں ان کے امیدوارنےبلاول بھٹوزرداری سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کیےتھے۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا سیاسی جماعتیں اور گروہ اتحاد بناتی ہیں یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہیں لیکن زیادہ دلچسپ یہ ہوگاکہ کیا تمام جماعتیں بلدیاتی نظام کےاختیارات کی بحالی کا مطالبہ کرتی ہیں جو 2013 کے لوکل باڈیز ترمیمی بل کے بعد کمزور ہوگیاتھا۔ 18ترمیم کےتحت صوبے مالی اور سیاسی اختیارات لوکل باڈیز اور یونین کونسل کی سطح تک منتقل کرنے کے پابند تھے۔

تازہ ترین