• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں‘ میں نے 18 ویں ترمیم کی دو شقیں کوٹ کی تھیں‘ اس سلسلے میں‘ میں نے سب سے پہلے آئینی ترمیم کی پہلی تعارفی شق پیش کی تھی‘ اس کالم میں‘ میں خاص طور پر اس شق کی آخری دو سطور پیش کررہا ہوں جن میں کہا گیا ہے کہ : ’’پاکستان کے عوام نے جس ریاست کے لئے جدوجہد کی ہے اس میں شہریوں کے حقوق محفوظ ہوں گے اور وفاق میں صوبوں کے مساوی حقوق ہوں گے‘‘۔ اسی کالم میں‘ میں نے 18 ویں آئینی ترمیم کی جو دوسری شق یعنی شق نمبر 12(جی) پیش کی ہے وہ بھی اس حوالے سے کم اہم نہیں ہے‘ اس شق میں کہا گیا ہے کہ ’’ساری وفاقی ملازمتیں بشمول خود مختار ادارے اور کارپوریشنز‘ جو وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کی گئی ہوں یا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہوں‘ میں صوبوں کے حصے محفوظ ہوں گے اور اگر ماضی میں صوبوں کے حصے پوری طرح نہیں دیئے گئے ہوں گے تو ان کی درستی کی جائے گی‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1947ء سے لیکر آج تک چھوٹے صوبے چیختے رہے ہیں کہ ان کے صوبوں کو بڑے صوبے کے برابر حقوق کیوں نہیں دیئے گئے؟ اس شق کو اگر شق 12 (جی) کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے تو بات کچھ زیادہ واضح ہوجاتی ہے‘ چھوٹے صوبے کے لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ خود مختار ادارے اور کارپوریشنز‘ جو وفاقی حکومت نے قائم کئے ہیں یا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ میں چھوٹے صوبوں کی نمائندگی تو برائے نام ہے لہٰذا چھوٹے صوبوں کے عوام کی رائے ہے کہ یا تو آئین پر ایمانداری سے عمل کیا جائے یا سائوتھ افریقہ کی طرز پر Truth Commission تشکیل دیا جائے جو تحقیقات کرکے سارے اعداد و شمار سامنے لائے کہ ان اداروں میں مختلف صوبوں کی کیا نمائندگی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مرکزی حکمران 18 ویں ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن کے بارے میں آئین کی کئی شقوں کو تسلیم تو نہیں کرتے مگر کیا مرکزی حکومت ان شقوں پر عمل کررہی ہے ؟۔ اس سلسلے میں‘ میں 18 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 58 کی شق (i) اور شق (ii) کی مثال دے رہا ہوں‘ اس آرٹیکل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 157 میں ترمیم کی گئی ہے‘ ترمیم شدہ آرٹیکل کے شق (i) میں کہا گیا ہے کہ

"In clause (1) for the full stop at the end a colon shall be substituted and thereafter the following proviso shall be inserted, namely:

"Provided that the Federal Government shall, prior to taking a decision to consult or cause to be consulted, hydro-electric power station in any province, shall consult the provincial Government concerned"

اسی طرح‘ اسی آرٹیکل کی شق (ii) میں کہا گیا ہے کہ

"After clause (2), the following new clause shall be added, namely:

In case of any dispute between the Federal Government and a provincial Government in respect of any matter under this Article, any of the said Governments may move the Council of Common Interests for resolution of the dispute.

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک ایسا ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے کسی صوبے میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن پر متعلقہ صوبے سے مشورہ کیا ہے؟ اسی طرح چھوٹے صوبوں کے لوگ بھی سوال کرتے ہیں کہ اس آرٹیکل کے تحت کسی ایشو پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازعہ پیدا ہونے پر کبھی مشترکہ مفادات کی کونسل سے رابطہ کیا گیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اب تک مرکز کے ساتھ اس اہم کونسل کو کتنی اہمیت دی جاتی رہی ہے وہ بھی ایک الگ ایشو ہے‘ اب ہم 18 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 59 کی طرف آتے ہیں‘ اس آرٹیکل کے ذریعے آئین کی شق 160 میں ترمیم کی گئی ہے‘ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ

"In the Constitution, in Article 160, after clause (3), the following new clauses shall be inserted, namely:

"(3A) The share of the provinces in each Award of National Finance Commission shall not be less than the share given to the provinces in the previous Award.

"(3B) The Federal Finance Minister and Provincial Finance Ministers shall monitor the implementation of the Award biannaully and lay their reports befor both Houses of Majlis-e-Shoora (Parliament) and Provincial Assemblies.

جہاں تک کلاز ( 3A) کا تعلق ہے تو موجودہ سال کی ہی مثال دی جاسکتی ہے‘ سندھ کو دیے گئے گزشتہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے مقابلے میں اس سال کا ایوارڈ مرکزی حکومت سندھ کو کم دے رہی ہے جس کے خلاف سندھ حکومت نے احتجاج بھی کیا ہے جہاں تک اس آرٹیکل کے کلاز ( 3P) کا تعلق ہے تو آج تک ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ وفاقی وزیر خزانہ اور صوبائی وزرائے خزانہ نے مشترکہ طور پر اپنی رپورٹیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی ہوں؟۔

تازہ ترین