• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے عوام نے ایک خواب دیکھا تھا۔ خوشحالی کا خواب کہ ہمارا ملک ترقی کرے گا اور ہماری حالت بھی بدلے گی۔ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اپنے ملک میں خوشحالی نصیب ہوگی۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب ہمارے بڑوں نے اسلامی فلاحی مملکت کا تصور پیش کیا۔ وہ چاہتے تھے ہمارے ملک کا نظام ایسا ہو جس میں امن و سلامتی ہو۔ انصاف ہو معاشرتی و معاشی عدل ہو مگر جو بھی وجوہات آڑے آتی رہیں ملک روزبروز بدسے بدتر ہوتا چلا گیا۔ سب نے ملک کو کھایا، پیا، لُوٹااور صرف اپنے خاندان کو مستحکم کیا۔ کوئی بھی حکومت عوام کی فلاح کے خاطر خواہ اقدامات نہ کرسکی اور عام عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ لوگوں کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں۔ تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہیں۔ پیٹ بھرنے کے لئے روٹی میسر نہیں۔ پینے کے لئے صاف پانی تک میسر نہیں جو بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ ایک فلاحی اور ذمہ دار حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام جو روٹی کپڑے اور مکان، جس کے صرف نعرے وہ ہر آنے والی حکومت سے سنتے آئے ہیں مگر اُن کے لئے اس کا اہتمام کسی بھی حکومت نے نہیں کیا، یہ ناممکن نہیں۔ یہ کام احسن طریقے سے حسن تدبیر اور خوبی ٔ تنظیم سے کیا جاسکتا تھا اور ہمارے چند باشعور امرا میں اتنا شعور ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز رکھتے ہیں۔ اگر وہ اسپتالوں ، مسجدوں اور فلاحی ادارے بنانے کے لئے پیسہ ضرورت مند کو دے سکتے ہیں تو وہ عوامی حکومت کے ساتھ مل کراس کام کو بھی مزید فروغ دے سکتے ہیں بشرطیکہ اُنہیں اس بات کا یقین ہو کہ اُن کا یہ پیسہ غریب عوام کی فلاح کے لئے خرچ کیا جائے گا۔ ہمارے غریب عوام کے لئے تجارت اور صنعت کے لئے کوئی ایسا نظام عمل میں لایا جائے جس میں ہر انسان کو کام کرنے اور کسب حلال کے پورے مواقع ملیں اور ایسے معاشی دائروں کو عمل میں لایا جائے جس میں محنت و مزدوری کی بھی مختلف صورتیں نکلیں اور جو مزدور محنت و جانفشانی سے کام کرے اُسے اُس کی محنت کا پھل بھی ملے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ایسے مفید کاموں میں حکومت کا پورا معاشی نظام پوری صلاحیتوں اور تنظیم کے ساتھ باہم چلتے رہیں۔ آج سے پہلے بھی یہی باتیں ہوتی رہی ہیں کہ ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے کیا ہر حکومت کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے اور جو وعدے وقت سے پہلے اس حکومت نے کیےوہ؟ اب معاشی بدحالی کا رونا کیوں رویا جارہا ہے۔ انہی حالات کو بہتر بنانے کے لئے عوام نئی حکومت کو اپنے قیمتی ووٹ دے کر حکومت میں لائے ہیں۔ ایک فلاحی مملکت کا یہ فرض ہے کہ کوئی بھی انسان جو محنت کرنا چاہتا ہے اور حق حلال کی روزی کمانا چاہتا ہے اُسے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ کوئی بھی معذور مجبور انسان فاقہ کشی کا شکار ہوکر خودکشی نہ کرے۔ اُسے بنیادی سہولتیں میسر آئیں۔ برسراقتدار حکومت کو یہ ادراک کیوں نہیں ہوتا کہ ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے۔

آجکل غریب غریب تر ہورہا ہے اونچ نیچ کا یہ فرق وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ عوام الناس دو بڑے طبقوں میں بٹتے چلے جارہے ہیں۔ غریب طبقے پر تمام تر مہنگائی اور بے روزگاری کا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں اگر ایسا ہوتا رہا تو ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ جب انسانیت شرف و عظمت سے گر جائے ۔ اسلام کے نزدیک ایک عہد کی پابندی بنیادی اخلاقی اقدار میں سے ہے۔ جس کے بغیر کسی اجتماعی نظام کی اساس مستحکم نہیں ہوسکتی۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو اُس کی بقا اور ترقی ایک دوسرے کے ساتھ کیے عہدوپیمان پر پورے اترنے پر مبنی اور منحصر ہے اور جو بھی بات کہی جائے اُس کا اعتبار ہو۔ وہی معاشرہ نہ صرف ترقی کرتا ہے بلکہ دنیا کے لئے ایک مثال بھی بن جاتا ہے۔ ہم اپنے اوصاف ہی سے اپنی قوم کو قابلِ اعتبار اور باوقار بنا سکتے ہیں اور اسی وجہ سے اُس معاشرے کو عزت و احترام ملتا ہے اور جس کے بغیر کوئی فرد کوئی قوم یا کوئی بھی معاشرہ امن و سلامتی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔

ہمیں چاہئے کہ ہم علم کی روشنی میں اپنے موجودہ قومی کردار پر ضرور نظر ڈالیں۔ آزادی کی منزل پانے کے لئے ہم نے کیا کیا قربانیاں نہ دی تھیں۔ ہم نے یہ سب اس لئے کیا کہ ہمیں ایک ایسا خطۂ زمین مل جائے جہاں ہم آزادی کے ساتھ سر اُٹھا کر چل سکیں۔ جہاں ہم ایسا معاشرہ قائم کریں جس میں جھوٹ نہ ہو، ظلم نہ ہو، کسی بھی شخص سے ناانصافی نہ ہو، ہر شخص انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھ سکے۔ جہاں ہم قومی کردار کے اعلیٰ اصولوں کو ساتھ لے کر چل سکیں۔ اگر ہم پورے خلوص اور پوری یکسوئی کے ساتھ جائزہ لیں تو یقینا ہر انسان اپنے عہد پر پورا اُتر سکتا ہے جس سے رہتی دنیا تک ہمارا قومی کردار زندہ اور تابندہ رہ سکتا ہے۔ ہم اپنے عہد کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ اپنے وعدے کو وفا کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ وعدے تو کرلیتے ہیں لیکن جب ذمہ داریوں کے پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ تاویلیں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب مشوروں کا وقت ختم ہوچکا ۔ اب صرف وعدوں کو وفا کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔

تازہ ترین