• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ فرید، کراچی

پاکستان ہماری پہچان،شان، آن، ا مان اور ہم سب پر اللہ ربّ العالمین کا احسان ہے۔ہم واقعی بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آزادی کی فضا میں آنکھ کھولی اورکسی ظالم و جابر قوّت کے قہر سے آزاد ہو کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج ہندوتوا کے (قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا اصطلاحی نام )فلسفے میں جکڑے بھارت میں مسلمانوں کو جن مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،وہ ہمیں آزادی کی قدر و قیمت سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کہیں انہیں خون پسینے کی کمائی سے بنائے گھرچھوڑ کر جان بچانے کے لیے ویران مقامات پر بستیاں بسانی پڑ رہی ہیں، تو کہیں گائے کے گوشت کے استعمال پر ماردھاڑ کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔

کہیں برسوں سے سکونت پذیر مسلمانوں سےبھارت کے باسی ہونے کے کاغذی ثبوت مانگے جا رہے ہیں،تو کہیں شہریت دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ تعلیم، ملازمت اور دیگر سہولیاتِ زندگی کی فراہمی میں وہ مذہب کی بنیاد پر شدید تعصب کا شکار ہیں، تو اُن پر دہشت گردی کا الزام لگا کر جینا بھی دشوار کیا جا رہا ہے۔ پھرآزادی کی قدر و قیمت کو تو اہلیانِ کشمیر کی جدو جہد بھی آشکار کر رہی ہے۔ کئی برسوں سے آزادی کے حق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے کشمیریوں کو آج بھی بھارتی فوج کی گولیوں کا سامنا ہے۔ کئی ہزار شہداء کی آرام گاہوں میںروزانہ چند جوان قبروں کا اضافہ ہو رہاہے۔ نا معلوم تعداد ہے ،جو لا پتا کر دی گئی ،جیلوں میں ڈال دی گئی ۔ اَن گنت خواتین عِصمتوں سے محروم کر دی گئیں۔ 

بچّوں کے جسم پیلٹ گن سے چھلنی کیے جارہے ہیں۔ جمّوں کشمیرمیں مقیم مسلمانوں کے دُنیا بَھر سے رابطے منقطع کر دئیے گئے ہیں،حتیٰ کہ کسی غیر جانب دارانہ شخص کو بھی وادی کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کے باوجود ان کے ہونٹوں پر صرف ایک ہی نعرہ ہے کہ ’’ہے حق ہمارا آزادی،ہم لے کے رہیں گے آزادی۔‘‘اور ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا یہ یقین رنگ لا کر رہے گا۔ کشمیر عن قریب بھارت کے نا جائز قبضے سے آزاد ہو گا۔ آج کے بھارت اور کشمیر کا یہ منظر ہمیں اور خصوصاً پاکستان کی نسلِ نو کو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ کل بھی جب ہمیں انگریز اور ہندو دو حریفوں کا سامنا تھا ،تو ہمارے اسلاف نے اِسی جذبے سے سرشار قوم بن کر قائدِاعظم کی قیادت میں ایک طویل سیاسی جنگ کے ذریعے آزادی حاصل کی تھی۔ یقین، اتحاد اور تنظیم کے بغیر آزادی کے معرکے سَر نہیں ہوا کرتے۔ 

اگر افراد اپنے ذاتی مقاصد سے بُلند ہوکر قومی مقاصد کے لیے جدوجہد نہ کریں اور اس راہ میں جان، مال، وقت اور صلاحیتوں کی قربانی نہ دیں، تو منزل حاصل نہیں ہوتی۔23مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد برِّ صغیر کے مسلمان قیامِ پاکستان کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے متحد ، یک سُو اور ہر قربانی کے لیے پُر عزم تھے،تو لیڈر نےبھی اس یقین پر جنگ لڑی کہ اس کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے۔ بلاشبہ قائدِ اعظم کی شکل میں ہمیں ایک ایسا رہنما عطا ہوا، جس کے حوصلے ، عزم اور لیاقت نے اس قوم کو اُٹھاکرکھڑا کردیا، یہاں تک کہ14 اگست 1947ءکو ربّ العالمین نے ہمیں ایسا خطۂ ارض عطا کیا، جہاں ہم مَن مرضی کے تحت نظامِ زندگی چلانے کے لیے آزاد تھے۔

بے شک، ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم ہر سال اس دِن کی یاد میں خوشیاں منائیں، چراغاں کریں، جھنڈے لہرائیں اور قومی و ملّی گیت گنگنائیں ،لیکن ہمیں اس بات پر بھی پوری سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے جس منزل کا خواب دیکھا تھا، وہ واقعی ہمیں مل چُکی ہے، کیا آج ہمارے مُلک میں انصاف کی حکم رانی، امن و سُکون ہے، ہر ایک کو جان، مال اور عزّت کا تحفّظ حاصل ہے، مذہب، صنف، عقائد اوربرادری کی تفریق کے بغیر سب کو یک ساں حقوق حاصل ہیں،کم زوروں کی سرپرستی، مظلوموں کی دادرسی ہو رہی ہے، مجرموں کو قرار واقعی سزا ئیں مل رہی ہیں، آزادیٔ رائے کا حق حاصل ہے؟ حکم ران ،عوام کے آگے جواب دہ ہیں، احتساب ہماری قومی شناخت بن چُکا ہے اور کیا ہم تفرقہ بازی سے آزاد ایک قوم کی مانند زندگی بسر کر رہے ہیں؟

سیدھی سی بات ہے کہ زمین کا حصول تو آزادی کے حصول کا پہلا مرحلہ تھا، اصل کام تو اس پر عدل کے تحت نظامِ زندگی کی عمارت تعمیر کرنے کا تھا۔افسوس کہ یہ مرحلہ تو ابھی تک طے نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلاف کے اَن مول جذبوں کی قدر کرتے ہوئے ہمیں مادّی وسائل سے مالا مال ایک بہترین خطّۂ زمین عطا کر دیا، اب اس خطّے پر بہترین نظام قائم کرنا ہماری ذمّے داری ہے،جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم جسمانی غلامی کے ساتھ ذہنی غلامی سے بھی آزادی حاصل کریں۔ ذاتی مفادات سے بُلند ہو کر قومی مفادات کے لیے جدوجہد کریں۔ ہر کام حکمرانوں پر چھوڑ دینے کی بجائے خود اپنے لیڈر بنیں۔ ’’صرف میرے ٹھیک ہونے سے کیا ہوگا؟‘‘ کی سوچ سے نکل کر ’’میرے ہی ٹھیک ہونے سے سب کچھ ہو گا‘‘ کی سوچ اختیار کریں کہ شاعرِمشرق نے بھی یہی فرمایا ہے؎’’افراد کے ہاتھوں ميں ہے اقوام کی تقدير… ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قوم ،افراد سے بنتی ہے۔ فرد کی سوچ، فرد کاعمل، فرد کے عزائم ہی قوم کو جنم دیتے ہیں۔ 

دُنیا میں کبھی کسی ایسی قوم نے ترقّی نہیں کی، جو بے ایمان، سُست و کاہل، جھوٹی، وعدہ خلاف، خود غرض، آسائشوں کی اسیر ،محنت سے جی چُرانے اورامانت میں خیانت کرنے والی،ہو۔یاد رکھیے، دُنیا میں ہمیشہ وہی اقوام ترقّی کرتی ہیں، جو اخلاقی صِفات سے مالا مال ہوتی ہیں۔ سچائی، محنت، ایمان داری، وعدوں کی پاس داری، امانت داری اور قومی مفادات پر یک سوئی جن کے شعار ہیں۔ آج جسے دیکھو، وہ بہترمعیارِزندگی کی تلاش میں بیرونِ مُلک جانے کی بات کررہا ہے۔ذرا سوچیے، دوسرے درجے کا شہری بن جانے سے یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنے مُلک میں رہ کر اِسے بہتر معیارِ زندگی والا مُلک بنانے کی جدو جہد کریں۔ 

بے شک یہ کام ایک دِن کا نہیں، لیکن کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کو تو پہلا قدم اُٹھانا ہی ہوگا۔ یہ آزادی کی راہ میں اپنی جان قربان کر دینے والوں کا ہم پر قرض ہے۔ اگر آج سے بھی پاکستان کے ساٹھ فی صد سے زیادہ نوجوان خود کو ان اخلاقی صفات سے آراستہ کرکے تعمیرِپاکستان کے مشن میں لگ جائیں، تو آنے والے چند برسوں میں ہم ایک بہتر پاکستان میں سانس لے سکیں گے۔ یہ یومِ آزادی ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ؎’’شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا…اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے‘‘۔

تازہ ترین