• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی بہت سے باتیں سمجھ میں آتی ہیں لیکن یہ مفت کے کھانے پر جھپٹنے اور ٹوٹ پڑنے کا قصّہ آج تک سمجھ سے بالاتر ہے۔ لوگ بھوکے ہوں، ترسے ہوئے ہوں، برسوں سے اچھے کھانے کی شکل نہ دیکھی ہو ، اس کے بعدکھانے پر پِل پڑیں تو حیرت نہ ہو۔ ہم نے بڑے بڑے کھاتے پیتے رئیسوں اور پیٹ بھرے لوگوں کو دیکھا ہے کہ کھانا لگتے ہی اس پر جھپٹتے ہیں اور اچھی سے اچھی بوٹیاں اچکنے میں جس مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر عقل حیران ہے۔
شادی بیاہ کے موقع پر ذرا سا لحاظ ہوتا ہے کہ مہمان جانے پہچانے ہوتے ہیں، واقف کار ہوتے ہیں، آپس کے لوگ ہوتے ہیں اور نام لے کر بیان کیا جاسکتا ہے کہ کس نے قورمے پر کیسے ہاتھ صاف کیا اور کس نے چاول سرکا سرکا کر نیچے سے بہترین بوٹیاں کیسے دریافت کیں۔ لیکن اب جو سیاسی جلسوں میں کھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اسے دیکھ کر تو حواس اُڑے جاتے ہیں۔ اول تو سیاسی جلسوں میں ہمارے زمانے میں نہ تو کرسیاں لگتی تھیں ، نہ کھانا کھلایا جاتا تھا۔ 14/اگست کو کراچی کے جہانگیر پارک میں لیاقت علی خاں سے لے کر خواجہ ناظم الدین تک بڑے بڑے رہنماؤں کی طویل تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ لوگ کھڑے ہو کر سنتے تھے اور کھانا، جیسا بھی روکھا سوکھا ہوتا تھا، اپنے اپنے گھر جاکر کھاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ پریڈی اسٹریٹ کے کسی ایرانی ہوٹل میں چھ پیسے کی چائے پی لیتے تھے اور چائے سے پہلے میز پر زور سے رکھا جانے والا پانی کا گلاس مفت ہوا کرتا تھا۔ اب وقت بدلا ہے اور ووٹر سے چونکہ غرض اٹکی ہوتی ہے اس لئے اس کے ناز اٹھانے کے لئے اسے کرسیاں فراہم کی جاتی ہیں اور قورمہ ، نان اور بریانی پیش کی جاتی ہے جس کے بعد کھیر یا حلوہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جن کھانوں کا میں نے نام لیا ہے، پیچھے کھڑے ہوکر ان کی خوشبو تو سونگھی ہے، کھانے کی سعادت مشکل ہی سے کبھی نصیب ہوئی اور تہہ میں بچ جانے والے شوربے پر با آوازِ بلند یہ کہہ کر خود اپنے ہی جی کو بہلا لیا کہ ہم نے پہلے ہی گوشت ترک کردیا ہے۔
اس قسم کی ضیافتوں میں وہ شادی بیاہ والی مروّت تو ہوتی نہیں۔ مجمع یہ سوچتا ہوا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے کہ ووٹ مفت میں تو نہیں ملتا۔ اب کوئی پہچانا نہیں جاتا، قورمے کی پوری قاب جو صاحب سروں کے اوپر سے لے گئے وہ کس علاقے کے تھے اور دیگ میں پلیٹیں ڈال ڈال کر بریانی جو حضرات دبوچ رہے تھے وہ کس محلّے کے تھے۔ ناقابل شناخت ہونے میں یہ فائدے بھی ہیں بلکہ ادھر پولیس والے نام نہاد ملزموں کے سروں پر سیاہ غلاف چڑھا دیتے ہیں وہ غلاف کھانے پر جھپٹنے والوں کے ہاتھ لگ جائیں تو دنیا زمانے سے بے نیاز ہو کر بے دریغ ٹوٹ پڑنے میں اور زیادہ سہولت ہو جائے۔
یوں اب لوگ سیانے ہو گئے ہیں۔ ایک بار کراچی کی آرٹس کونسل میں فیض صاحب کی یاد منائی جا رہی تھی، اس تقریب کے بعد قریب کے پارک میں حکومتِ سندھ کی جانب سے موسیقی اور کھانے کا اہتمام تھا۔ تمام مجمع کے ساتھ شاعر ادیب بھی مدعو تھے۔ میں ٹھہرا پردیسی، انہی کے ساتھ ساتھ چلا۔ جلسہ گاہ میں نشستیں سنبھالتے وقت ان لوگوں نے خیال رکھا کہ کھانے کی میزوں کے قریب بیٹھا جائے۔یہ تدبیر کارگر ہوئی ورنہ کسی قریبی ہوٹل میں جانا پڑتا۔ انہی دنوں کراچی بلدیہ نے ایک بڑا استقبالیہ دیا۔ بہت سی اقسام کے کھانے تھے۔ میری تو چاندی ہوگئی کیونکہ وہاں گرم گرم بگھار لگی دال بھی چُنی ہوئی تھی۔ لوگ قورمے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے اور میں دال کے لقمے اطمینان سے بتیس دفع چبا چبا کر کھا رہا تھا۔ البتہ ایک بار مفت کا کھانا بڑے منظّم انداز میں نصیب ہوا ، وہ بھی یاد رہے گا۔ میں سیہون شریف گیا ہوا تھا، ساتھ میں کچھ مقامی احباب تھے۔ وہاں حضرت شہباز قلندر کی درگاہ کے علاوہ ان کے ایک جاروب کش کا ان سے بھی اونچا روضہ ہے جہاں ہر دوپہر لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ شہر کے لوگ گھڑی پر نظر رکھتے ہیں۔ احباب نے کہا کہ نہایت سادہ اور لذیز لنگر ہوتا ہے۔ وہاں لوگ اطمینان سے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ ہر ایک کے ہاتھ پر ایک ایک نان رکھ دی گئی جس پر غالباً چنے کی دال رکھی تھی۔ ابھی ہم کھانے کا لطف اٹھا رہے تھے کہ اندر انتظامیہ کو ہماری موجودگی کی خبر ہوگئی۔ وہ ہمیں اندر عمارت میں لے گئے جہاں وہی کھانا صاف پلیٹوں میں پیش کیا گیا۔ اس کھانے میں وہ باہرجیسا لطف نہیں تھا۔
کراچی میں ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ ان کے دفتر میں کام کرنے والے لڑکے دوپہر کے کھانے کے وقت ایدھی کے دسترخوان پر چلے جاتے ہیں اور غریبوں اور ناداروں کے ساتھ بیٹھ کر وہیں کھاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے کام کرنے سے پہلے انسان کوئی جواز تلاش کرکے خود کو قائل کرتا ہے۔ وہ لڑکے صاف بات کرنے کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ گھر میں بکرے کا گوشت دیکھنے کو بھی نہیں ملتا، ایدھی کے دسترخوان پر مل جاتا ہے۔لندن کی مرکزی مسجد کے آس پاس بڑے مہنگے فلیٹ ہیں جن میں مالدار عرب کنبے قیام کرتے ہیں۔ نہایت پیسے والے ہوتے ہیں اور چاہیں تو مہنگے سے مہنگے ہوٹل میں ٹھہر سکتے ہیں لیکن مسجد کا قرب انہیں عزیز ہے۔ سبب دلچسپ ہے۔ ماہ رمضان میں افطار کے وقت وہاں کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ عرب حضرات بیوی بچّوں سمیت پہنچ جاتے ہیں اور کھانے پر روزہ داروں کی طرح نہیں، فاقہ کشوں کی طرح ٹوٹتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کے پہلے دوچار روزوں میں قورمہ ملتا ہے، کچھ روز بعد پانی جیسا سالن اور آخر میں روٹی کے ساتھ دال ملنے لگتی ہے، انہیں یہ بھی منظور ہے۔یہ کیفیت بلا سبب تو نہیں ہو سکتی۔ مفت کے کھانے کے ساتھ یہ بے رحمی کیوں؟
وہ جو سب سے پہلے میزبان بسم الله کہہ کر پہلا لقمہ توڑتا تھا، اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اسی خشوع و خضوع سے کھانا شروع کرتے تھے، وہ لوگ تو اٹھنے تھے سو اٹھ گئے مگر حیرت ہے کہ کھانے پر سے وہ برکت کیوں اٹھ گئی اور اٹھ کر کہاں چلی گئی۔ کوئی نکل کر باہر گلی میں دیکھے، ممکن ہے ابھی زیادہ دور نہ گئی ہو۔ نہیں، واپس آجائیے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
تازہ ترین