• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر اوباما نے ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے لیبیا میں مداخلت کا دفاع کرنے کے باوجود یہ اعتراف کیا ہے کہ معمر القذافی کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے بعد مناسب منصوبہ بندی نہ کرنا ان کی غلطی تھی۔ اس سے پیشتر گزشتہ ماہ ایک میگزین کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں بھی انہوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ لیبیا میں کارروائی کے دوران ہونے والی پیش رفت ان کی توقع کے عین مطابق ہوئی لیکن اگر وہ شمالی افریقہ کے اس ملک میں مداخلت سے پہلے طویل المدت منصوبہ بندی کر لیتے تو لیبیا آج بحران کا شکار نہ ہوتا۔ لیبیا میں قذافی حکومت کا خاتمہ کرنے کا امریکہ کے پاس کیا جواز تھا اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والے دونوں فریقوں کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ لیبیا کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے جانے کے بعد وہاں خانہ جنگی اور سرپھٹول کا وہی منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے جو افغانستان میں سابق سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد امن اور انتقال اقتدار کی کوئی منصوبہ بندی کئے بغیر امریکہ کے چلے جانے کے بعد نظر آیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے برملا یہ اعلان کیا تھا کہ عراق پر حملہ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینا ان کی غلطی تھی۔ لیبیا اور عراق میں انتشار و افتراق اور داعش کے قدم جمانے سے جو تباہی و بربادی پورے خطے میں اپنے پَر پھیلا رہی ہے وہی صورتحال افغانستان میں امریکہ کی دوبارہ آمد کے باوصف موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بلا سوچے سمجھے ایسے غلط اقدامات کرنے کا خمیازہ دنیا کب تک بھگتتی رہے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے وسیع تر عالمی اور علاقائی مفادات کے تناظر میں اپنی پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں اور جب تک وہ اپنی کسی حکمت عملی کے تباہ کن اثرات کا ادراک کرتی ہیں اس وقت تک اتنا نقصان ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کا مداوا ممکن نہیں ہوتا اس لئے کمزور ممالک کو اپنی چراگاہیں ہاتھیوں کی لڑائی سے دور ہی رکھنی چاہئیں۔
تازہ ترین