جس گھر کی اکیس سالہ بیٹی صبح دس بجے ملازمت کے لئے نجی ادارے میں درخواست دینے نکلی ہو اور وہ شام تک گھر نہ لوٹے تو گھر کے مکین پریشان ہو جاتے ہیں، پھر بیٹی کا موبائل بند آ رہا ہو تو والدین کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، کراچی کے اس سفید پوش گھرانے میں بقر عید سے صرف پانچ دن پہلے یہ آفت آچکی تھی، رات گئے لڑکی کے والدین شدید پریشانی کے عالم میں بیٹی کی تلاش کے لئے مارے مارے پھر رہے تھے، بات عزت کی بھی تھی، عَلانیہ کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے تھے کہ بیٹی صبح سے غائب ہے لہٰذا احتیاط کے ساتھ بیٹی کی تلاش کے لئے کوششیں جاری تھیں کہ رات گیارہ بجے ایک اجنبی نمبر سے لڑکی کے والد کے نمبر پر فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ تمہاری لڑکی ہمارے قبضے میں ہے، اس کی واپسی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، اگر پولیس کو آگاہ کیا تو لڑکی کی لاش کسی کچرا خانے سے مل جائے گی۔ لڑکی سے بات بھی نہیں کرائی گئی اور اگلی کال کا انتظار کرنے کا کہا گیا۔ اس فون کال نے گھر والوں کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر دیے، گھر میں موت کا سماں تھا، ہمت کرکے قریبی رشتہ داروں کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا، پولیس اور سی پی ایل سی میں رپورٹ کرائی گئی، افسوس کراچی پولیس اور سی پی ایل سی نے اس طرح تعاون نہیں کیا جس طرح کی ان کی ذمہ داری بنتی تھی، رات بھر بھاگ دوڑ اور سفارشوں کے بعد لڑکی کے اغواء کی ایف آئی آر درج کی گئی، گھر کے داماد کے ذریعے معاملہ میڈیا تک پہنچا لیکن عزت اور بدنامی کے ڈر سے میڈیا والوں سے درخواست کی گئی کہ خاموشی سے بیٹی بازیاب کروانے کی کوشش کریں تاکہ عزت بھی محفوظ رہے اور بیٹی بھی جلد از جلد واپس مل جائے، رات گئے ایک نامعلوم نمبر سے ایک اور فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ لڑکی کو ایک خطیر رقم کے بدلے کراچی کے فلاں مقام سے لے جائیں، پولیس کو ایک بار پھر معاملے سے آگاہ کیا، تاہم کراچی پولیس کی روایتی سستی کے باعث اگلے دو دن تک لڑکی کا کچھ پتا نہ چل سکا، لڑکی کے گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی، لڑکی کی والدہ روز جیتی اور روز مرتی تھی، بدنامی کے ڈر سے رونے کی آواز گھر سے باہر جانے پر خود ساختہ پابندی تھی لیکن پھر کراچی پولیس کی جانب سے لڑکی کے اہلِ خانہ کو ایک نمبر فراہم کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ اغوا کاروں کا اس نمبر پر رابطہ ہے اور یہ نمبر فیصل آباد کا ہے، فوری طور پر اس نمبر کو فیصل آباد پولیس کے ایس پی کے علم میں لایا گیا، اُنہوں نے واقعے کی سنجیدگی کے پیشِ نظر فوری طور پر نمبر ٹریس کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نمبر اس وقت میانوالی میں متحرک ہے، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد خان نیازی کے علم میں یہ معاملہ لایا گیا، اتفاق ایسا تھا کہ کراچی میں جس حلقے سے لڑکی اغوا ہوئی تھی وہاں سے وزیراعظم عمران خان پہلے قومی اسمبلی کا انتخاب جیتے تھے تاہم انہوں نے کراچی والی نشست خالی کردی تھی جبکہ جس علاقے میں لڑکی کی موجودگی کی اطلاع تھی وہ بھی تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد خان نیازی کا حلقہ انتخاب تھا، امجد خان نیازی نے لڑکی کے اہلِ خانہ کو یقین دلایا کہ وہ جلد از جلد لڑکی کی بازیابی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے، امجد خان نیازی نے فوری طور پر ڈی پی او میانوالی کو معاملے کا نوٹس لینے اور فوری طور پر لڑکی کو بازیاب کرانے کی ذمہ داری سونپی، جس کے بعد نہ صرف امجد خان نیازی بلکہ ڈی پی او صاحب خود اس معاملے کی نگرانی کرتے رہے، لڑکی کے والد اور بھائی بھی میانوالی پہنچ چکے تھے جبکہ پولیس کی فرض شناسی بھی شاندار تھی، علاقے میں مخبروں کا جال پھیلا دیا گیا تھا، پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف دبائو مسلسل جا رہا تھا، لڑکی کے بھائی اور والد کو بھی پولیس نے اپنی مکمل حفاظت میں رکھا ہوا تھا، چند گھنٹوں میں پولیس نے کچھ افراد کو گرفتار بھی کر لیا تھا جبکہ ملزم کی گرفتاری کے لئے مسلسل چھاپے بھی مارے جارہے تھے، عید والے دن بھی پولیس لڑکی کی بازیابی کے لئے مسلسل کوششوں میں مصروف تھی، ڈی پی او اور ان کے ماتحت انسپکٹر علاقے کی پولیس کے ساتھ لڑکی کی بازیابی میں مصروف تھے اور بالآخر عید کے دوسرے روز لڑکی کو باحفاظت بازیاب کرا لیا گیا۔ لڑکی کے بوڑھے والدین کو بیٹی کی واپسی سے یقیناً نئی زندگی ملی ہوگی، حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں کے پی اور پنجاب پولیس میں بہترین تبدیلی آئی ہے جس کے ثمرات پورے ملک کے عوام کو نصیب ہورہے ہیں، اگر پورے پاکستان کی پولیس میانوالی پولیس کی طرح فرض شناس ہو جائے تو ملک میں جرائم خود بخود ہی ختم ہو جائیں، اس کیس میں اب بھی کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ اُمید ہے پولیس ان کی گھتیاں بھی سلجھا لے گی۔