• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند برس پہلے کوہسار مارکیٹ میں دوستوں کے ساتھ کافی پی رہا تھا کہ اچانک ایک صاحب آئے، میرا نام پوچھا اور پھر بتایا کہ ’’میرا نام شیخ محمد عمر ہے، پولیس میں ڈی آئی جی ہوں، آپ نے علی اکبر وینس کے متعلق خوب لکھا ہے، وہ واقعتاً اعلیٰ آدمی تھے، میں نے بطور ڈی پی او ان کے ساتھ کام کیا، زندگی میں ان سے اچھا سیاست دان نہیں دیکھا‘‘۔ میں نے پولیس افسر سے پوچھا وہ کیسے؟

میرے اس سوال پر وہ بولا ’’میری زیادہ سروس سندھ میں رہی، لاڑکانہ، نواب شاہ اور جیکب آباد میں ڈی پی او رہا، میرے لئے پنجاب کا تجربہ نیا تھا، مجھے ڈی پی او بہاولنگر لگایا گیا، علی اکبر وینس ضلع ناظم تھے، میں نے پہلے دن ان سے پوچھا کہ ووٹ چاہئے یا انصاف؟ علی اکبر وینس نے کہا انصاف چاہئے، بس اس کے بعد میں جتنی دیر بہاولنگر رہا، جی بھر کر لگن سے کام کیا۔

میری کارکردگی پر وہ بہت خوش تھے بلکہ مجھے شاندار کارکردگی پر حکومت پنجاب کی طرف سے سراہا گیا، علی اکبر وینس نے کبھی غلط کام کو سپورٹ نہیں کیا تھا، نہ ہی کبھی مجرموں کی پشت پناہی کی تھی‘‘۔

وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن شیخ محمد عمر کو آر پی او ڈیرہ غازی خان لگا دیا گیا اور اس دوران نئے پاکستان کا زمانہ آ گیا، اسے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ انڈس ہائی وے پر بہت حادثات ہوتے ہیں، ان کو کنٹرول کیا جائے۔

اس نے پولیس افسران کی میٹنگ بلائی، تجاویز لیں اور پھر کہا کہ ان تجاویز پر دو سال سے پہلے عملدرآمد ممکن نہیں مگر ہمیں حادثات پر ابھی کنٹرول کرنا ہے پھر اس نے پولیس افسران کو خود ایک راستہ بتایا جس پر عمل شروع ہوا تو حادثات رک گئے۔

اس اقدام کو سراہا گیا مگر ایک روز وزیراعلیٰ ہائوس سے فون آیا کہ تونسہ میں ایک ڈکیتی کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ اس پر آر پی او نے کہا کہ جن کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی ان کو میرے پاس بھیج دیں۔ ملنے کیلئے تو دو افراد آئے لیکن اس جہاندیدہ پولیس افسر نے باقی کرداروں کو بلوا لیا۔ ساتھ ہی تونسہ کے ایک رکن اسمبلی کو فون کیا کہ اگر میں انصاف کروں تو آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا، اس نے کہا نہیں۔

انصاف ہوا تو چھ افراد گرفتار ہو گئے پھر وہی رکن اسمبلی سفارشیں کرنے لگا کہ ان میں سے ایک تو یونین کونسل کا چیئرمین ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس سے فون آنا شروع ہو گئے لیکن آر پی او ڈٹ گیا اور ڈٹا رہا۔شیخ عمر، شعیب سڈل کی طرح جرائم کی تہہ تک پہنچتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ ’’جرائم نہیں جرائم کی ماں کو مار دو تاکہ جرم پیدا ہی نہ ہو سکے‘‘ ایک بار اس نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے چار ڈی ایس پی، بارہ ایس ایچ او اور بارہ محرر میٹنگ کے لئے بلوائے۔

میٹنگ میں پہلا سوال کیا کہ پچھلے سال پارکو کی سپلائی لائن کتنی مرتبہ کاٹی گئی، جواب آیا کہ گیارہ مرتبہ ،اب کرائم کو سمجھنے والا پولیس افسر سیدھا ہوا اور کہنے لگا ’’مجھے پتا ہے کہ پارکو سپلائی لائن جب بھی کٹتی ہے تو پارکو کو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ایک گھنٹے میں چار ٹینکر بھرے جاتے ہیں اس واردات سے ایس ایچ او کو دس لاکھ، ڈی ایس پی کو پانچ لاکھ اور پارکو کے ایریا سیکورٹی انچارج ریٹائرڈ میجر کو دس لاکھ ملتے ہیں، بس آپ نے بہت ظلم کر لیا اب کوئی واردات ہوئی تو مجھے کوئی ڈی ایس پی یا ایس ایچ او اطلاع نہیں کرے گا بلکہ مجھے یہ اطلاع یہاں بیٹھے ہوئے محرر کریں گے اور وہ اطلاع اس وقت کریں گے جب متعلقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو حوالات میں بند کرلیں گے۔

میٹنگ ختم ہوئی تو اس کے بعد ان تمام وارداتوں کے سرغنہ شریف لُنڈ کو گرفتار کر لیا گیا جونہی یہ گرفتاری ہوئی تو ایک خاتون رکن اسمبلی نے سفارش کی اور کہا کہ شریف لُنڈ کو چھوڑ دیں، آر پی او نے انکار کیا تو خاتون رکن کہنے لگیں کہ سرغنہ امیر آدمی ہے، اس کی پچیس مربع زمین ہے، اس کے دس پٹرول پمپ ہیں، وہ کیسے وارداتیں کروا سکتا ہے؟ آر پی او نے جواباً کہا کہ یہ امیر آدمی تیس سال پہلے صرف ایک ہاکر تھا چونکہ شریف لُنڈ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے کئی سیاست دانوں کے الیکشن اخراجات برداشت کرتا ہے لہٰذا اس کی کئی سفارشیں آئیں مگر کام نہ بن سکا۔

جب گیارہ ماہ میں کوئی واردات نہ ہوئی تو پارکو والے شکریہ ادا کرنے آئے، انچارج بریگیڈیئر کے ساتھ سیکورٹی ایڈوائزر ڈی آئی جی نیاز صدیقی بھی تھے، نیاز صدیقی کے زیر سایہ عمر شیخ کام کر چکے تھے اس میٹنگ میں پارکو سیکورٹی کے تین ریٹائرڈ میجرز بھی تھے۔

شیخ عمر نے میجر کی موجودگی میں بریگیڈیئر کو بتایا کہ ’’ہر واردات آپ کے سیکورٹی میجرز کی مرضی سے ہوتی ہے کیونکہ ہر واردات میں سے دس لاکھ روپیہ ان کو ملتا ہے‘‘۔

ہمارے سیاست دان کہاں کام کرنے دیتے ہیں۔ پچھلے سال بجٹ سیشن کے موقع پر ڈی جی خان ڈویژن کے چھ ایم این ایز اکٹھے ہو گئے اور وفاقی حکومت سے کہنے لگے کہ بجٹ منظوری کے لئے ووٹ تب دیں گے جب آر پی او عمر شیخ کو ہٹایا جائے گا بس پھر عمر شیخ کو ہٹا کر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔

اسے کہیں آئی جی نہیں لگایا جا رہا حالانکہ پنجاب میں کتنے آئی جی تبدیل کئے جا چکے ہیں مگر انہیں کون سمجھائے کہ آئی جی تبدیل کرنے سے کام نہیں بنتا بلکہ ڈھنگ کا آئی جی لگانے سے تبدیلی آتی ہے، ناصرہ زبیری یاد آ گئیں کہ

اے خدا، یہ تو میرے دیس کا دستور نہ تھا

میری تعلیم کا، تہذیب کا منشور نہ تھا

تازہ ترین