• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کفّارِ مکّہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف روز نت نئے منصوبے بناتے، لیکن اُنھیں ہمیشہ ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک روز اُن کے بڑے مختلف منصوبوں پر غور کر رہے تھے کہ کسی نے مشورہ دیا’’یہودی مذہبی معاملات میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں، تو کیوں نہ اُن سے (حضرت) محمّد(ﷺ) کے دعوائے نبوّت کے بارے میں رائے لی جائے۔‘‘ سرداروں کو مشورہ پسند آیا اور ایک وفد مدینہ منوّرہ کے یہودیوں کے پاس روانہ کردیا۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ بیان کرتے ہیں’’قریشِ مکّہ نے علمائے یہود کے پاس پیغام بھیجا’’ہمیں( حضرت) محمّد(ﷺ) کے متعلق بتائیں کہ اُن کے دعوے سے متعلق تمہاری کُتب میں کوئی تذکرہ یا علامات ہیں کہ نہیں؟‘‘ اِس پر یہودیوں نے جواب دیا’’ تم اِن باتوں کو تو چھوڑو، ہم تمھیں تین سوالات بتاتے ہیں، اگر وہ اُن کا درست جواب دے دیں، تو سمجھ لینا کہ وہ ضرور اپنے دعوے میں سچّے ہیں :(1) اُس شخص کا حال بیان کیجیے، جو مشرق و مغرب میں فتوحات کرتا چلا گیا۔(2) اُن چند نوجوانوں پر کیا گزری، جو کافر بادشاہ کے خوف سے غار میں جا چُھپے تھے؟ (3) رُوح کے متعلق بیان کیجیے۔‘‘وفد خوشی خوشی واپس پہنچا اور اپنے ساتھیوں کو سوالات سے آگاہ کیا۔ وہ بولے’’ واقعی اِن سوالات کے جوابات ایک اُمّی شخص تب ہی دے سکتا ہے، جب اُس پر وحی آتی ہو۔‘‘ قریش، نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تینوں سوالات پیش کردئیے۔اِنہی سوالات کے جواب میں سورۂ کہف نازل ہوئی۔‘‘( تفسیر ابنِ کثیر، ج 3، ص 72) مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے مطابق، تیسرا سوال رُوح نہیں، بلکہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضرؑ کے واقعے سے متعلق تھا، جس کا تفصیلی جواب اِسی سورت میں دیا گیا ہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو’’ مَیں اُن کا کچھ حال تمھیں پڑھ کر سُناتا ہوں۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اُن کو زمین میں اقتدار بخشا تھا اور اُنھیں ہر کام کے وسائل عطا کیے تھے،جس کے نتیجے میں وہ ایک راستے کے پیچھے چل پڑے،یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے، تو اُنھیں دِکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے( سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ اور وہاں اُنھیں ایک قوم ملی۔ ہم نے(اُن سے) کہا’’ اے ذوالقرنین!( تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو اِن لوگوں کو سزا دو یا پھر اِن کے معاملے میں اچھا رویّہ اختیار کرو۔‘‘اُنھوں نے کہا’’ اِن میں سے جو کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے گا، اُسے تو ہم سزا دیں گے، پھر اُسے اپنے ربّ کے پاس پہنچا دیا جائے گا اور وہ اُسے سخت عذاب دے گا۔البتہ ،جو کوئی ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، تو بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہوگا اور ہم بھی اُس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے۔‘‘اِس کے بعد وہ( ذوالقرنین) ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑا،یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے، تو اُنھوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے، جسے ہم نے اُس( کی دھوپ) سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ مہیّا نہیں کی تھی۔واقعہ اِسی طرح ہوا اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ (سازوسامان) تھا، ہمیں اُس کی پوری پوری خبر تھی۔اِس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے،یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے، تو اُنھیں اُن پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے، جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔

اُنھوں نے کہا’’ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اِس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں۔ تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کر سکتے ہیں، جس کے بدلے آپ ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں؟‘‘ذوالقرنین نے کہا’’ اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے، وہی(میرے لیے) بہتر ہے۔ لہٰذا تم لوگ( ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو مَیں تمھارے اور اُن کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا،مجھے لوہے کی چادریں لادو۔‘‘ یہاں تک کہ جب اُنھوں نے( درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا، تو کہا کہ’’ اب آگ دہکاؤ،‘‘ یہاں تک کہ جب اُس ( دیوار) کو لال انگارا کردیا، تو کہا کہ’’ پگھلا ہوا تانبا لاؤ، اب مَیں اُس پر انڈیلوں گا۔‘‘چناں چہ (وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اُس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ ہی اُس میں کوئی سوراخ بنا سکتے تھے۔ذوالقرنین نے کہا’’ یہ میرے ربّ کی رحمت ہے( کہ اُس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے ربّ نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے، جب وہ وقت آئے گا، تو وہ اس( دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا اور میرے ربّ کا وعدہ بالکل سچّا ہے۔‘‘( سورۂ کہف، 85 تا 98، ترجمہ مفتی محمّد تقی عثمانی)۔

ذوالقرنین کون تھے؟

قرآنِ پاک میں ذکر کردہ ذوالقرنین کون تھے؟ مفسّرین اور مؤرخین نے اِس حوالے سے سکندرِ اعظم، یمن کے حمیری بادشاہ اور سائرسِ اعظم کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اِس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ ذوالقرنین کا تعیّن قرآنِ پاک میں بیان کردہ نشانیوں کی بنیاد ہی پر کیا جاسکتا ہے۔ قرآنِ پاک کے مطابق ذوالقرنین اللہ پر ایمان رکھنے والا ایک نیک بادشاہ تھا۔ اُس نے مختلف سمتوں میں تین بڑی فوجی مہمّات سَرانجام دیں، یاجوج ماجوج سے حفاظت کے لیے ایک آہنی دیوار بنوائی اور پھر یہ کہ زمین کے ایک وسیع حصّے پر اُس کی حکومت قائم تھی۔

نیز، اِس معاملے کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ذوالقرنین سے متعلق سوال یہودیوں کے ایما پر پوچھا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں اُس بادشاہ کی کوئی خاص اہمیت تھی، تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سا بادشاہ تھا، جسے یہودی اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔ قدیم دَور کے بعض مفسّرین کا خیال ہے کہ سکندرِ اعظم ہی ذوالقرنین تھا۔ تاہم اس رائے کو قبول کرنے میں مشکل یہ ہے کہ سکندرِ اعظم، جسے سکندر مقدونی اور سکندر یونانی بھی کہا جاتا ہے، عقیدے کے لحاظ سے آتش پرست تھا، جب کہ اُس کے ظلم و ستم اور قتل و غارت کی کہانیاں بھی تاریخ میں عام ہیں۔ 

علاوہ ازیں، اُس کی حکومت بھی اِس قدر وسیع نہیں تھی کہ اُسے مشرق و مغرب پر حکومت سے تشبیہہ دی جا سکے۔ یمن کے حمیری بادشاہوں کے لیے’’ ذو‘‘ کا لقب استعمال کیا جاتا تھا، جیسے ذو نواس اور ذوالنّون وغیرہ۔ اس خاندان میں ایک ایسا بادشاہ بھی گزرا، جس کا لقب ذوالقرنین بتایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مفسّرین نے اُسے ہی قرآن کا ذوالقرنین قرار دیا ہے۔ البیرونی نے تو اپنی کتاب میں کچھ ایسے قدیم اشعار بھی نقل کیے ہیں، جن میں اُسی بادشاہ کو ذوالقرنین بتایا گیا ہے۔ 

تاہم اِس رائے کو بھی قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ، مفتی محمّد شفیعؒ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاریؒ ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور مفتی محمّد تقی عثمانی سمیت بیش تر جدید مفسّرین اور مؤرخین کا سائرسِ اعظم( خورس، خسرو یا کورش) کی طرف رجحان ہے کہ قرآنِ پاک میں بیان کردہ بیش تر نشانیاں اُسی پر صادق آتی ہیں۔ 

یہودیوں میں حضرت دانیالؑ کے ایک خواب کا چرچا تھا، جس میں اُنھوں نے لمبی سینگوں والے ایک ایسے مینڈھے کو دیکھا تھا، جو مختلف سمتوں میں سینگیں مارتا اور کوئی جانور اُس کے مقابلے میں نہ ٹھہرتا۔ یہودی کتب کے مطابق، حضرت جبرائیلؑ نے اس خواب کی تعبیر یوں فرمائی کہ’’ مینڈھا ماد اور فارس کا بادشاہ ہے۔‘‘ یہودی اِسی بنیاد پر اُس بادشاہ کے منتظر تھے، جو اُنھیں اُن کا کھویا مقام واپس دِلا سکے۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہو چُکی ہے کہ وہ سائرس ہی تھا، جس نے ماد اور فارس کو متحد کرکے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد ڈالی اور پھر ایک کے بعد دوسرا علاقہ فتح کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اُس کی سلطنت بقول مولانا مودودی’’ ایک طرف سندھ اور ترکستان سے لے کر مِصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف مقدونیہ تک وسیع ہوگئی تھی۔ شمال میں اُس کی سلطنت قفقاز اور خوارزم تک پھیل گئی تھی۔ 

عملاً اُس وقت کی پوری مہذّب دنیا اُس کی تابع فرمان تھی۔‘‘ سائرس نے یہودیوں کو بخت نصر جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے نجات دِلائی اور اُن کے مقدّس ترین مقام، یروشلم( موجودہ مقبوضہ بیتُ المقدِس) کو دوبارہ آباد کیا۔ نیز، سائرس، اللہ پر ایمان رکھنے والا ایک صالح بادشاہ تھا۔ مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری نے اپنی معروف کتاب’’ قصص القرآن‘‘ کی جلد سوم میں اِس معاملے پر نہایت عمدہ علمی بحث کی ہے۔

نام کا مطلب

قرن، سینگ کو کہتے ہیں اور’’ ذو‘‘ کا مطلب ہے، دو۔یوں ذوالقرنین کا مطلب ہوا، دو سینگوں والا۔ اُسے یہ نام کیوں دیا گیا؟ اِس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں، جن کے مطابق، اُس کی دو زلفیں تھیں، اِس لیے ذوالقرنین کہلائے۔ مشرق و مغرب پر حکومت کی وجہ سے یہ لقب ملا۔ سَر پر سینگوں جیسے نشان تھے۔

کیا وہ نبی تھے؟

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کی ذوالقرنین سے گفتگو کا ذکر ہے، جب اُس نے ایک علاقے کو فتح کیا تھا، اِس لیے یہ سوال سامنے آیا کہ کیا وہ نبی تھے اور کیا یہ گفتگو وحی کے ذریعے ہوئی تھی؟ علّامہ ابنِ کثیر نے اپنی کتاب البدایّہ والنھایّہ میں اُنھیں نبی قرار دیا ہے، تاہم یہ بھی وضاحت کی ہے کہ بیش تر علماء کا اِس پر اتفاق ہے کہ وہ نبی نہیں تھے۔ مفسّرین کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن تک اُس زمانے کے پیغمبر کے ذریعے بات پہنچائی ہو یا پھر اُن پر الہام ہوا ہو۔

3 بڑے سفر

سورۂ کہف میں ذوالقرنین کی تین اہم مہمّات کا ذکر ہے۔ اُنھوں نے پہلا سفر مغرب کی جانب کیا اور ایک ایسی جگہ پہنچے، جہاں آگے کوئی آبادی نہیں تھی، بس سمندر ہی سمندر تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ یہاں تک جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے، تو اُنھیں دِکھائی دیا کہ وہ ایک دَلدل جیسے سیاہ چشمے میں ڈوب رہا ہے۔‘‘ یعنی غروبِ آفتاب کا منظر کچھ ایسا تھا، جیسے وہ کسی سیاہ دَلدل میں اُتر رہا ہو۔ ذوالقرنین نے وہ علاقہ فتح کرلیا۔ اب اُس کا امتحان تھا کہ وہ شکست خوردہ قوم کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔’’ وہاں اُنھیں ایک قوم ملی۔ ہم نے( اُن سے) کہا ’’اے ذوالقرنین! ( تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو ان لوگوں کو سزا دو یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویّہ اختیار کرو۔‘‘ وہ چاہتا، تو عام بادشاہوں کی طرح عوام کے قتلِ عام کا حکم دے سکتا تھا، لیکن چوں کہ وہ ایک نیک اور عادل بادشاہ تھا، اِس لیے جواب دیا’’ ان میں سے جو کوئی ظلم کا راستا اختیار کرے گا، اُسے تو ہم سزا دیں گے، پھر اُسے اپنے ربّ کے پاس پہنچا دیا جائے اور وہ سخت عذاب دے گا۔ 

البتہ، جو کوئی ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، تو بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہوگا اور ہم بھی اُس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے۔‘‘ بعدازاں، ذوالقرنین نے مشرق کی طرف رُخ کیا’’ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے، تو اُنھوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے، جسے ہم نے( اُس کی دھوپ) سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ مہیا نہیں کی تھی۔‘‘ یعنی وہ لوگ کُھلے میدانوں میں رہنے کے عادی تھے، جس کی وجہ سے سورج کی شعائیں اُن پر براہِ راست پڑتی تھیں۔ اس کے بعد اُنھوں نے تیسری مہم کا آغاز کیا، جس کی سمت کا قرآنِ کریم میں کوئی ذکر نہیں، تاہم مفسّرین کے مطابق یہ سفر شمال کی جانب ہوا تھا۔’’ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے، تو اُنھیں اُن پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے، جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔‘‘ بہرحال، ذوالقرنین نے کسی طریقے سے اُن سے گفتگو کی، تو وہ بولے’’ اے ذوالقرنین! یاجوج ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں۔ 

تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کر سکتے ہیں، جس کے بدلے آپ ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی دیوار بنادیں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو اپنے خزانوں سے بہت کچھ عطا کیا تھا، لہٰذا اُنھوں نے جواب دیا’’ اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے، وہی(میرے لیے) بہتر ہے۔ لہٰذا تم لوگ ( ہاتھ اور پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو مَیں تمھارے اور اُن کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادوں گا۔ مجھے لوہے کی چادریں لادو۔‘‘ یوں دیوار کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا’’ جب اُنھوں نے(درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا، تو کہا’’ اب آگ دہکاؤ،‘‘ یہاں تک کہ جب اُس( دیوار) کو لال انگارا کردیا، تو کہا’’ پگھلا ہوا تانبا لاؤ، اب مَیں اُس پر انڈیلوں گا۔‘‘ چناں چہ( وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اُس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ اُس میں کوئی سوراخ بنا سکتے ہیں۔‘‘

یاجوج ماجوج کی حقیقت

ان کے متعلق بہت سے قصّے کہانیاں مشہور ہیں کہ کچھ کا قد چار پانچ انچ ہے، تو کئی بہت طویل القامت ہیں۔ کان اِس قدر لمبے ہیں کہ ایک اوڑھنے اور دوسرا بچھانے کے کام آتا ہے۔ اِسی طرح یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ حضرت آدمؑ کی اولاد تو ہیں، مگر امّاں حّوا کی نہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ یاجوج ماجوج بھی عام انسانوں کی طرح ہیں۔ ’’یاجوج ماجوج سے مُراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں، جو تاتاری، منگولی، ھُن اور سنتھنین وغیرہ کے ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدّن ممالک پر حملے کرتے رہتے ہیں‘‘( تفہیم القرآن)۔ مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری کے مطابق’’ منگولیا (تاتار) کے دو بڑے وحشی قبائل کو اُن کے پڑوسی’’ موگ‘‘ اور’’ یوچی‘‘ کہتے تھے۔ 

یونانیوں نے اُنھیں میک یا میگاگ اور یوگاگ کہا، بعدازاں یہ الفاظ عربی اور عبرانی میں یاجوج اور ماجوج ہوگئے۔‘‘ ان کا اصل وطن منگولیا اور اس کے اطراف کا علاقہ ہے، جہاں سے بہت سے قبائل مہذّب دنیا کی طرف نقل مکانی کرتے رہے اور اُنھوں نے نئے نئے نام پائے، جب کہ یاجوج ماجوج کا نام صرف اُنھیں اُجڈ اور وحشی قبائل کے لیے مختص ہوگیا، جو اب بھی اُس علاقے میں رہتے ہیں، جسے ذوالقرنین نے دیوار کے ذریعے باقی دنیا سے الگ تھلگ کیا تھا۔

دیوار کہاں بنائی گئی؟

ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کہاں ہے؟ اِس میں خاصا اختلاف ہے۔ یہ دیوار شمال میں بنائی گئی تھی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِن علاقوں میں ابھی تک کئی ایسی دیواریں سامنے آچُکی ہیں، جو بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی تھیں۔ سب سے مشہور دیوار’’ دیوارِ چین‘‘ ہے، مگر وہ لوہے اور تانبےکی نہیں ہے۔ دوسری دیوار، بخارا اور ترمذ کے قریب دربند میں ہے، جو تیمور لنگ کے دَور میں بھی موجود تھی، کیوں کہ اُس زمانے کے ایک اندلسی قاصد نے اپنے سفرنامے میں اُس کا ذکر کیا ہے۔ تیسری دیوار، داغستان میں ہے۔ 

یہ بھی دربند اور باب الابواب کے نام سے مشہور ہے۔ چوتھی دیوار، اِسی باب الابواب سے کچھ فاصلے پر کوہِ قاف(قفقاز) میں ایک درے کو بند کرتی ہے، جو’’ درۂ داریال‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ درہ، پہاڑ کی دو بلند چوٹیوں سے گِھرا ہوا ہے۔ عبّاسی بادشاہ، واثق باللہ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ سدِ ذوالقرنین ٹوٹ گئی ہے، تو اُس نے تحقیق کے لیے جو وفد بھیجا، وہ بھی اسی دیوار کو دیکھنے آیا۔ اس وفد نے یہ بھی بتایا کہ وہ دیوار لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی ہے۔بیش تر مفسّرین اسی دیوار کو’’ سدّ ِ ذوالقرنین‘‘ قرار دیتے ہیں۔

خروجِ یاجوج ماجوج

جب ذوالقرنین دیوار کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو بولے’’ یہ میرے ربّ کی رحمت ہے( کہ اُس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے ربّ نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے، جب وہ وقت آئے گا، تو وہ اس( دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا اور میرے ربّ کا وعدہ بالکل سچّا ہے۔‘‘اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمّد تقی عثمانی نے لکھا ہے کہ’’ قرآنِ کریم سے یہ بات یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتی کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی، بلکہ اس کا قیامت سے پہلے بھی ٹوٹنا ممکن ہے۔ یاجوج ماجوج کے مختلف ریلے تاریخ کے مختلف زمانوں میں متمدّن آبادیوں پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں اور پھر وہ خود بھی متمدّن علاقوں میں پہنچ کر خود کو متمدّن کرتے رہے ہیں، البتہ ان کا آخری ریلا قیامت سے کچھ پہلے نکلے گا۔‘‘مفسّرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یاجوج ماجوج کے جو قبائل دیوار کے ذریعے اِس طرف آنے سے روک دئیے گئے ہیں، وہ قیامت کے بالکل قریب تک اسی طرح محصور رہیں گے۔البتہ باقی علاقوں میں موجود اُن کے قبیلے دنیا پر حملے کرتے رہے ہیں۔

جب اللہ کا حکم ہوگا، تو دیوار زمین کے برابر ہوجائے گی اور وحشی یاجوج ماجوج دنیا پر ٹوٹ پڑیں گے۔اُن کے آخری ہلّے کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے پھسلتے نظر آئیں گے‘‘ ( سورۃ الانبیاء، 96)یعنی اُن کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی اور وہ اِس تیزی سے حملہ آور ہوں گے کہ یوں لگے گا، جیسے پہاڑوں سے پھسل پھسل کر آرہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بہت سے مسلمانوں کو لے کر کوہِ طور پر پناہ گزین ہو جائیں گے اور باقی لوگ بھی محفوظ مقامات میں بند ہو کر اپنی جانیں بچائیں گے۔پھر حضرت عیسیؑ کی دُعا سے یاجوج ماجوج ایک وبائی مرض میں مبتلا ہوکر مَر جائیں گے۔

تازہ ترین