• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کیلئے آئینی آپشنز زیرغور، وزیراعظم سے بات ہوئی ہے، اس وقت عدالت کو تفصیلات بتانے کی پوزیشن میں نہیں، اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں بیان

اس وقت عدالت کو تفصیلات بتانے کی پوزیشن میں نہیں، اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں بیان


کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے شہر کراچی میں تجاوزات ختم نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ ریاست کی لائف لائن کراچی کو مافیا چلا رہی ہے،سندھ تباہی کے دہانے پر ہے۔

تجاوزات کا ہونا منہ بولتا ثبوت ہےکہ صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے، صرف حکمران انجوائے کررہے ہیں، یہ تو مکمل انارکی والا صوبہ ہوگیا ہے، کون ٹھیک کریگا صوبے کو ؟ کیا وفاقی حکومت کو کہیں کہ آکر ٹھیک کرے ؟ لوگوں کے بنیادی حقوق کون دیگا ؟پورا شہر غلاظت اور گٹر کے پانی سے بھرا ہوا ہے، مچھر، مکھیوں اور جراثیم کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ 

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ کراچی بچانے کیلئے آئینی آپشن پر غور کر رہے ہیں،شہر قائد اس وقت یتیم شہر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، میگا سٹی کو بچانے کیلئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے۔

 گزشتہ روز وزیر اعظم سے کراچی کے حوالے سے تفصیلی بات ہوئی مگر ممکنہ کیا اقدامات ہو سکتے ہیں یہ اس وقت عدالت کو بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ ہے، عدالت نے ایکشن لیا تو تجاوزات ہٹا دیتے ہیں، کیا اسطرح میگا سٹی چلتے ہیں۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہاں تو لوگوں کو پانی اور بجلی کیلئے بھی عدالت آنا پڑتا ہے۔

عدالت نے این ڈی ایم اے کو کراچی بھر کے نالوں کی صفائی اور اطراف میں قائم تجاوزات بھی تین ماہ میں ختم کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ این ڈی ایم اے کی مکمل معاونت کرے اور متاثرین کی بحالی اور متبادل کیلئے سندھ حکومت اقدامات کرے۔ 

عدالت نے سندھ حکومت کو حاجی لیموں گوٹھ کے نالوں سے تجاوزات ختم کرکے متاثرین کی بحالی کا حکم بھی دیدیا۔ بدھ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نالوں کی صفائی اور غیر قانونی تجاوزات سے متعلق سماعت کی۔

دوران سماعت کمشنر کراچی نے موقف اختیار کیا کہ نالے پر غیرقانونی تعمیرات ہیں، تجاوزات کیخلاف کارروائی میں مزاحمت کا سامنا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نالوں کی صفائی کا کیا ہوا؟ این ڈی ایم اے بھی کررہی تھی ؟۔ کمشنر کراچی نے بتایا کہ این ڈی ایم اے نے تین بڑے نالے صاف کیے ہیں، کراچی میں 38 بڑے نالے ہیں اور 514 چھوٹے نالے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ این ڈی ایم اے نے پورے شہر کے نالوں کی صفائی کیوں نہیں کی؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے دو روز قبل آئے تھے آج نہیں آسکے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ نالوں کی صفائی کیلئے وفاق کو آنا پڑا، لوگوں کے بھی حقوق ہیں مگر شہریوں کو کوئی بنیادی حق نہیں دیا جارہا، یہ کیسی طرز حکمرانی ہے کہ صوبے کے لوگوں کا ہی خیال نہیں ؟ ہیلی کاپٹر پر دو چکر لگا کر آکر بیٹھ جائینگے۔

 ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ تجاوزات کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو امن کا مسئلہ ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پورا شہر انکروچ ہوا ہے، یہ آپکی ناکامی ہے کہ تجاوزات ختم نہیں کرسکے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ حاجی لیموں گوٹھ میں پتلی گلیاں ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ لوگوں نے پورے کراچی کو گوٹھ بنادیا ہے، پورا شہر غلاظت اور گٹر کے پانی سے بھرا ہوا ہے، مچھر، مکھیوں اور جراثیم کا ڈھیر لگا ہوا ہے، لوگ پتھروں پر چل کر جاتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ دو ماہ میں حاجی لیموں گوٹھ کلیئر ہوجائیگا۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے سال ہوگئے آپ کو حکومت کرتے ہوئے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہماری یہ آپ کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی لوگوں کے ساتھ کمٹمنٹ ہونی چاہیے مگر لوگوں کے ساتھ کیا کیا ؟ کراچی سے کشمور تک برا حال ہے جہاں جائیں وہی حال ہے، سندھ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ 

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں تو پانی اور بجلی کیلئے لوگوں کو عدالت آنا پڑتا ہے، میرا تعلق اسی صوبے سے ہے مگر حال دیکھیں یہاں، آپ عوام کے حقوق کو نقصان پہنچا رہے ہیں، پچھلے چالیس سال میں کراچی کا برا حال کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کراچی کو مافیا آپریٹ کررہے ہیں کوئی قانون کی عمل داری نہیں، پوری حکومتی مشینری سب ملوث ہیں، افسر شاہی سب ملے ہوئے ہیں، کروڑوں روپے کما رہے ہیں غیرقانونی دستاوئزات کو رجسٹرڈ کرلیا جاتا ہے، سب رجسٹرار آفس میں پیسہ چلتا ہے، معلوم نہیں پراپرٹی کس کے نام لیکن رجسٹر ہوگئی، جب کوئی مرجائیگا تو بچوں کو پتا چلے گا کہ قبضہ ہوگیا۔ 

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ دنیا بھر میں لوگوں کی حکمرانی ہوتی ہے وہ ووٹ دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کورونا وائرس میں سب سے پہلے سب رجسٹرار کا آفس کھول دیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کراچی سے کشمور تک کچھ نہیں کیا، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ پر سٹرک بنا دیتے ہیں، صوبائی حکومت لوگوں کو اس حال میں دیکھ کر انجوائے کر رہی ہے، کہیں قانون کی عمل داری نظر نہیں آ رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جو بجٹ آپ نے مختض کیا اس میں ایک پیسہ نہیں لگایا گیا، یہی نہیں فارن ایڈ یا جو امداد آئی وہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ُکراچی اس وقت ایک یتیم شہر بنا ہوا ہے، اگر کراچی تباہ ہوا تو پاکستان تباہ ہو گا، وفاقی حکومت کراچی کو بچانے کے لئے مختلف قانونی اور آئینی آپشن سوچ رہی ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جو چالیس سال سے حکمرانی کررہے ہیں انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ 

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ میری وزیر اعظم سے بات ہوئی ہے وفاقی حکومت کراچی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، کراچی کی مکمل تباہی کو دیکھتے ہوئے مختلف آپشنز پر غور ہورہا ہے، کراچی کی تباہی ملک کی تباہی ہے اسلیے قانونی پہلوئوں پر غور کیا جارہا ہے۔ 

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس میں کہا کہ کراچی تو لائف لائن ہے۔ 

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کراچی ملک کا میگا سٹی ہے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم سب اس آئین پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم بھی آئین کے مطابق مختلف آپشنز پر غور کررہے ہیں، اس ماہ مقامی حکومت ختم ہورہی ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو ناکام لوگ ہیں مکمل ناکام، یہ تو شہر نہیں جنگل بن گیا ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کے حکم سے ہمیں بہت تقویت ملتی ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر ایمپریس مارکیٹ سے بھی تجاوزات ختم ہوئی ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے حکم کا انتظار کیوں کرتے ہیں ؟ آپکے پاس انتظامی اختیارات ہیں آپ اپنا کام خود کیوں نہیں کرتے ؟ نالے صاف کرنے کیلئے بھی آپ عدالت کے حکم کا انتطار کریں گے ؟۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ کس قسم کا کلچر بن گیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ لوگوں کی اصل ضروریات صحت اور تعلیم میسر نہیں، لوگوں کو پانی اور بجلی فراہم کرنے کے بنیادی حقوق ہی نہیں دے سکے تو تعلیم تو دور کی بات ہے۔

تازہ ترین