دبئی، استنبول، تہران(اے ایف پی، جنگ نیوز، خبرایجنسیاں) اسرائیل امارات معاہدہ پرمسلم دنیا تقسیم، ترکی اور ایران کا شدید ردعمل سامنے آگیا جبکہ دنیا بھر کی نظریں سعودی عرب پر ہیں کہ اس کی جانب سے کیا ردعمل سامنے آتا ہے،تجزیہ کاروں کاکہناہےکہ سعودی عرب محتاط راستہ اپنائیگا۔
حسن روحانی کاکہناہےکہ فلسطینی عوام کے جذبات مجروح ہوئے،طیب اردوان کاکہناہےکہ امارات سے سفارتی تعلقات معطل کرسکتے ہیں جبکہ اماراتی معاون وزیر کاکہناہےکہ ہم خود مختار ریاست، فیصلہ اپنے مفادات کوسامنے رکھ کر لیا ۔
تفصیلات کے مطابق ترکی اور ایران نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس پر فلسطین کاز کے ساتھ غداری کرنے کا الزام عائد کردیا ہے۔
غیرملکی خبررساںادارے کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیاہے کہ امارات کو فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے یا ʼفلسطین کے لیے اہم معاملات پر مراعات دینے کا کوئی اختیار نہیں،عرب میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ترکی کی جانب سے کہا گیا کہ تاریخ اور خطے کے لوگوں کا ضمیر ʼاسے نہیں بھولے گا اور متحدہ عرب امارات کے اس منافقانہ رویے کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا عندیہ دے دیا،رجب طیب اردوان نے استنبول میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ʼہم متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات معطل کرنے یا وہاں سے اپنا سفیر واپس بلانے کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
ادھرایران کے صدر حسن روحانی نے بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں کوئی بھی پیشرفت فلسطینی عوام کے بغیر قابل قبول نہیں ہوگی،متحدہ عرب امارات نے فلسطینی عوام کے جذبات کو مجروح کیا۔
وہاں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کیساتھ تعلقات کادفاع کرتے ہوئے کہاہےکہ اس اقدام کا مقصد مشرق وسطیٰ کی ڈپلومیسی میں بڑی تبدیلی اور اماراتی مفادات کاتحفظ ہے،امارات کے معاون وزیر برائے ثقافت اور سفارت کاری عمر سیف گھوباش نے معاہدے پر فلسطینیوں کےالزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ عرب دنیا کی طرف سے کسی اور قابل عمل تجویز کی عدم موجودگی میں پیشرفت کرچکا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہم نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ہم ایک انتہائی مشکل حالات میں داخل ہونے اور چیزوں کو بدلنےکے قابل ہیں اور ہم اس معاہدے سے سامنے آنے والی مثبت پیشرفتوں کو دیکھنے کے منتظر ہیں۔
گھوباش نے کہاکہ ہم نے کسی سے صلاح مشورہ نہیں کیا، کسی کومطلع بھی نہیں کیا اور ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے ہم یہ محسوس نہیں کرتے ہیں کہ ہمارا ایسا کرنا فرض ہے،ہم نے اپنے مفادات اور اپنے حساب کتاب کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے فیصلہ لیا ہے۔
ہم نے گزشتہ 20سال دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے گزارے، ہماری ایک فعال خارجہ پالیسی ہے اور ہم خود مختار فیصلے خود کریں گے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد دیگر عرب ممالک بھی امارات کی پیروی کرسکتے ہیں تاہم عرب خطے کا اہم اور بڑا ملک سعودی عرب اس حوالے سے احتیاط کا مظاہرہ کرے گا،ریاض کو مزید سیاسی سوچ بچار کرنا ہوگی جو ایک مشکل ہوگی۔
متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ تعلقات بحال کرنے والی خلیج کی پہلی ریاست بن گئی ہے، دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں سے روابط تھے، اومان اور بحرین بھی اسرائیل کیساتھ سفارتی طور پر رابطوں میں ہیں، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے 2018ء میں اومان کا دورہ کیا تھا جبکہ بحرین نے گزشتہ برس اسرائیلی صحافیوں کی میزبانی کی تھی۔
اومان اور بحرین دونوں نے جمعرات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے اعلان کا خیر مقدم بھی کیا جبکہ اس حوالے سے سعودی حکومت نے نمایاں طور پر چپ سادھی ہوئی ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز میں خلیجی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے یول گوسانسکے نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سب سے پہلے بحرین متحدہ عرب امارات کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کیساتھ تعلقات بحال کرے گا جبکہ اس کیساتھ ساتھ ممکنہ طور پر چند افریقی ممالک بھی ایسا کریں گے۔
سابق اسرائیلی وزراء اعظم کے سابق مشیر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب اس معاملے پر جلد بازی کا مظاہرہ کرے گا، میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب خلیجی ممالک اور عرب دنیا کے رد عمل کو دیکھے گا اور اس کے بعد فیصلہ کرے گا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ سعودی عرب امارات کی طرح مکمل طور پر اسرائیل سے تعلقات بحال کرے گا۔
سعودی عرب کے تعاون سے 2002ء میں عرب امن معاہدے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 1967ء کی جنگ کے بعد فلطسطینیوں کے قبضے کئے گئے علاقوں سے دستبردار ہوجائے تو قیام امن کے اس اقدام کے بدلے میں وہ اسرائیل کیساتھ تعلقات مکمل طور پر بحال کرسکتے ہیں،عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کیساتھ تعلقات بہتر کئے ہیں، سعودی پالیسی میں یہ تبدیلی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی وجہ سے آئی ہے۔
ریاض نے 2018ء میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی فضائی حدود اسرائیل جانے والے طیارے کو استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ واشنگٹن میں عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار حسین ایبش کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی اسرائیل کیساتھ باقاعدہ طور پر تعلقات کی بحالی کا قدم نہیں اٹھائے گا۔
میرا خیال ہے کہ شاہ سلمان اس معاملے پر تھوڑے بہت ناراض ہوں گے کیوں کہ اس نے عرب ممالک کے اتفاق رائے میں دراڑ ڈال دی ہے، اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے عرب پیس انیشیٹیو کے نام سے عرب ممالک میں یہ اتفاق رائے پیدا ہوا تھا کہ اگر اسرائیل 1967ء کی لڑائی میں قبضہ کئے گئے علاقوں سے دستبردار ہوجائے تو وہ اسرائیل کیساتھ تعلقات پر غور کرسکتے ہیں۔
اردن (جس کی سرحدیں مغربی کنارے سے ملتی ہیں) نے کہاہےکہ اس معاہدے کے نتائج اسرائیل کے اقدامات بشمول فلسطینیوں کیساتھ دو ریاستی حل پراس کے موقف پر منحصر ہیں، اردن کے وزیرخارجہ ایمن الصفدی نے کہا ہےکہ امن کوششوں پر معاہدے کے اثرات اسرائیل کے اقدامات سے منسلک ہیں۔مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہاہےکہ میں ہمارے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لئے اس معاہدے کےخالقوں کی کوششوں کی تعریف کرتا ہوں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو روکنےکا یہ معاہدہ مشرق وسطی میں’’امن‘‘ لانے میں مدد فراہم کرے گا۔