• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ1978ء کی بات ہے، جب مشہور اداکار، قوی کی پروڈیوس کردہ فلم ’’نیلام‘‘ حیدر آباد شہر کے مقامی سنیما میں ریلیز ہوئی، اس فلم کا شہر بھر میں بڑا چرچا تھا۔ ریلیز کے موقعے پر اداکار قوی اپنے قریبی دوست اداکار، کمپیئر طارق عزیز کو بھی ساتھ لائے۔ ’’نیلام‘‘ یوں تو لوگوں میں کافی پسند کی گئی، مگر باکس آفس پر متوقع بزنس نہ کرسکی۔ اداکار قومی اور طارق عزیز کا مقامی ہوٹل میں مختصر سا قیام تھا۔ اس موقعے پر ایک تنظیم نے ان کی حیدر آباد آمد پر اسی ہوٹل میں ایک تقریب بھی منعقد کی۔ 

اس شان دار اور پروقار تقریب میں کافی لوگوں نے شرکت کی۔ کچھ مقررین کے بعد ہمیں بھی قوی کی اداکاری اور ان کے فلمی کیریئر پر روشنی ڈالنے کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا، تو ہم نے ان کے فنی سفر اور حقیقت سے قریب تر اداکاری پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملادیئے۔ 

ہمارے بعد اداکار قوی اور پھر طارق عزیز اسٹیج پر آئے۔ قوی نے اپنی آمد پر اور اپنی فلم کی خوبیوں کا ذکر کیا اور جب طارق عزیز کی باری آئی، تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’قوی صاحب! یہ جو صاحب ابھی آپ کی شان میں قصیدے پڑھ کر گئے ہیں، ان کی باتوں میں بالکل نہ آنا۔ ابھی آپ کی منزل نہیں آئی۔ ابھی آپ کو اور لمبا سفر کرنا ہے، جس میں کچھ مشکلات بھی آئیں گی، جنہیں اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے چلے جانا ہے۔‘‘ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ طارق عزیز دورانِ گفتگو شعر کہے بغیر نہیں رہ سکتے، تو انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں ایک مشہور شعر بھی پڑھا؎تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب.....یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے۔ لوگوں نے شعر پر خوب تالیاں بھی بجائیں اور طارق عزیز کی تقریر کو سراہا اور یوں تقریب کا اختتام ہوا۔ 

آخر میں سب لوگ اسٹیج پر جمع ہوگئے اور قوی اور طارق عزیز کو گھیر لیا۔ اپنے درمیان دو بڑے فن کاروں کو دیکھ کر لوگ بہت خوش تھے۔ یوں تو یہ تقریب قوی کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی، مگر پوری محفل پرطارق عزیز ہی چھائے رہے۔ گو کہ یہ ایک مختصر سی یادداشت ہے، جو طارق عزیز کے ساتھ گزرے چند لمحات پر محیط ہے، اور برسوں کی دھول تلے تقریباً دب چکی تھی، مگر طارق عزیز کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کی یادیں ایک بار پھر ابھر کر آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کل کی بات ہو، اُس وقت طارق عزیز بھی جوان تھے اور قوی بھی۔ طارق عزیز اب ہم میں نہیں رہے۔ اور قوی بڑھاپے کی دہلیز پار کر چکے ہیں۔

طارق عزیز 28اپریل 1936ء کو متحدہ پنجاب کے شہر، جالندھر میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام میاں عبدالعزیز پاکستانی تھا۔ شاید انہوں نے اپنا تخلص پاکستانی اس لیے رکھا کہ اس وقت جدوجہدِ پاکستان کی تحریک عروج پر تھی اور وہ بھی اس تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور 1947ء میں پاکستان کے شہر منٹگمری (ساہیوال) آگئے۔ 

بعدازاں، روزگار کی تلاش میں لاہور چلے گئے اور ایک اخبار سے وابستہ ہوگئے، پھر کچھ عرصے بعد ریڈیو پاکستان، لاہور میں صداکاری شروع کردی۔1964ء میں پی ٹی وی آیا، تو اس سے منسلک ہوگئے۔ طارق عزیز نے 25سے زیادہ فلموں میں کام کیا، جن میں انسانیت، سال گرہ، زندگی، کٹاری اور ماں بنی دلہن سمیت دیگر فلمیں شامل ہیں۔ تاہم، انہیں ٹی وی کے مقبول شو ’’نیلام گھر‘‘ سے بے پناہ شہرت ملی، جو لگ بھگ تیس سال تک لوگوں کی توجّہ کا مرکز بنا رہا۔

طارق عزیز نے ادب، صحافت، شاعری اور اداکاری میں طبع آزمائی کے علاوہ سیاست میں بھی حصّہ لیا، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز پیپلزپارٹی سے کیا۔1996ء میں مسلم لیگ جوائن کی اور نواز شریف کی ایما پر قومی اسمبلی کے الیکشن میں عمران خان کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچے۔ انہیں1992ء میں پرائڈ آف پرفارمینس سے بھی نوازا گیا۔ انہیں اُس زمانے کے منہگے ترین اینکر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ انتقال سے قبل انہوں نے اپنی تمام جائیداد اور اثاثہ جات پاکستان کے نام کرکے جذبہ حبّ الوطنی کی انوکھی مثال قائم کی اور جاتے جاتے بھی کہہ گئے ’’پاکستان زندہ باد۔‘‘

تازہ ترین