• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عثمان ڈار صاحب نے کپتان کے ہم نام اینکر کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شریف دور میں جو پاور پلانٹ 21روپے فی یونٹ بجلی دے رہے تھے ،موجودہ حکومت نے ان کے ساتھ 6روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔

یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شریف دورِحکومت میںقومی خزانے کو مہنگی بجلی خریدنے کے باعث 6000کروڑ روپے کا سالانہ نقصان ہورہا تھا مگر اب یہ پیسہ بچا لیا گیا ہے۔عثمان ڈار اور ان کے ممدوح اینکر نے جو فرمایا ،وہ سب قوم کا سرمایا۔ہماری کیا مجال کہ اختلاف کی جسارت کریں اور ان توپوں کا رُخ اپنی طرف کرلیںجو لفافہ صحافی یا پھر پٹواری کے القابات داغنے میں ہرگز پس و پیش نہیں کرتیں۔ چنانچہ صحافیانہ لَت کے پیش نظر دو سوال کرنے کی گستاخی پر اکتفا کروں گا۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اگر بجلی سستی خریدی جارہی ہے تو پھر عوام کو 6روپے فی یونٹ کے بجائے 24روپے فی یونٹ میں فروخت کرکے ان کی چیخیں کیوں نکلوائی جا رہی ہیں اور دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ جو بچت کرکے اتنا پیسہ بچایا جا رہا ہے ،وہ کہاں جا رہا ہے ؟کرپشن اور منی لانڈرنگ رُک جانے سے پہلے ہی اربوں روپے بچائے جا چکے ہیں، کارکے کیس میں 2کھرب روپے بچا لئے گئے اور اب معلوم ہوا کہ 6000کروڑ روپے سالانہ سستی بجلی خرید کر بچائے جا رہے ہیں تو پھر یہ پیسہ غربت اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا عوام کی فلاح و بہبود پر کیوں نہیں خرچ کیا جا رہا ؟

جب بچت سے ہی بے پناہ سرمایہ وصول ہو رہا ہے تودھڑا دھڑ نوٹ چھاپ کر اور غیر ملکی قرضے لیکر ملک چلانے میں کیا حکمت ہے؟عثمان ڈار کی طرح ڈاکٹر شہباز گل کا شمار بھی موجودہ حکومت کا ڈٹ کر دفاع کرنے والوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ سے متعلق جو ٹویٹ کی ،اسے نظرانداز کر دینا چاہئے کیونکہ انہیں ہرگز معلوم نہیں تھا کہ اس منصوبے کا ٹھیکہ کس کے پاس تھا۔

البتہ شہباز گل صاحب کی ایک اور ٹویٹ عقل و خرد کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔جناب شہباز گل صاحب نے یہ مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک ماہ کے دوران 3لاکھ موٹرسائیکلوں کی فروخت کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔

ان اعداد و شمار کو معاشی سرگرمیوں کے فروغ اور ترقی و خوشحال کے نئے دور کے آغاز پر محمول کرتے ہوئے شہباز گل صاحب نے جوش مسرت میںلکھا ہے کہ بدل رہا ہے عمران خان کا پاکستان ۔یقینا کپتان کا نیا پاکستان بدل رہا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو بدل چکا ہے اور تبدیلی کا جادو اس قدر سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ اور کوئی بات سنائی ہی نہیں دے رہی۔میری کیا بساط کہ ممولے کو شہباز سے لڑانے کی غلطی کروں اور پھر کف افسوس ملتا رہوں۔ایک بار پھر صحافیانہ جبلت کے باعث ایک آدھ سوال پر قناعت کروں گا۔

اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ تبدیلی کی لہر لوگوں کے وسائل اور آمدن کو یوں خس و خاشاک کی مانند بہا لے گئی ہے کہ متوسط طبقے کے وہ لوگ جو چھوٹی موٹی کار لئے پھرتے تھے اب ’’بے کار‘‘ہو گئے ہیں۔ان کے حالات اجازت نہیں دیتے کہ وہ گاڑی کے اخراجات برداشت کر سکیں اور پھر گاڑیوں کی قیمتوں میں گزشتہ دو برس کے دوران اس قدر ریکارڈ اضافہ ہوا ہے کہ لوئر مڈل کلاس کے لوگ گاڑی خریدنے کی استطاعت سے محروم ہوگئے ہیں اور معکوس ترقی کرکے گاڑی سے موٹر سائیکل پر آگئے ہیں۔

شاید یہی وجہ تو نہیں کہ موٹر سائیکلوں کی فروخت کا ریکارڈ قائم ہوا ہے ؟ویسے اگر تبدیلی کی لہر یونہی تلاطم برپا کرتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ آئندہ برس موٹر سائیکلوں کے بجائے سائیکلوںکی فروخت کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہو جائے اور آپ اس پر داد و ستد کے ڈونگرے برساتے پائے جائیں ۔

ہمارے عہد کے ایک بڑے شاعر احمد فراز جنہوں نے حکومت پاکستان کی طرف سے دیا گیا ہلال امتیاز ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میںبطور احتجاج واپس کردیا تھا ،اب انہیںنشان امتیاز دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ان کے فرزند ارجمند شبلی فراز موجودہ حکومت کے ترجمان ہیں اور انہوں نے چند روز قبل آگاہ کیا کہ گندم کی درآمد کے لیے جہاز بہت جلد پاکستان پہنچ جائیں گے ۔نیا پاکستان وجود میں آنے کے بعد 2018ء میں حکومت کی طرف سے ایک مہم چلائی گئی جس میں کاشتکاروں کو ترغیب دی گئی کہ وہ گندم کے بجائے دالیں ،کینولا اور سن فلاور جیسی فصلیںکاشت کریں ۔

یہ مہم چلانے کی وجہ یہ تھی کہ گندم ذخیرہ کرنے کے لئے گودام بھر چکے تھے اور نئی فصل آنے پرمحکمہ خوراک مزید گندم خریدنے کا روادار نہ تھا ۔اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ برس گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہوا ہے اور اس سال یہ معاملہ نہایت سنگین صورتحال اختیار کرنے جا رہا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گندم کی کٹائی کے فوراً بعد ہی قیمتیں بڑھنے لگیں ۔بالعموم ابتدائی 9ماہ قیمتیں کم ہوتی ہیںیا مستحکم رہتی ہیں جبکہ آخری تین ماہ میں قیمتیںبڑھتی ہیں اور نئی گندم کے مارکیٹ میں آتے ہی پھر پرانے نرخ بحال ہوجاتے ہیں۔مگر ایسا پہلی بار ہوا کہ تین ماہ بعد نہ صرف گندم کی فی من قیمت 1300روپے سے بڑھ کر 2400روپے ہو گئی بلکہ آٹے کی قیمت بھی اسی تناسب سے آسمان کو چھونے لگی۔

حکومت پاکستان نے کارکے رینٹل پاور کیس میںایک ارب 20کروڑ ڈالر جرمانے سے بچانے پر تین افسروں کو ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا ہے۔گرے لسٹ سے نکلوانے کی کوشش کرنے والوں کو بھی ایوارڈ دیا جارہا ہے ۔کیوں نہ پاکستان کی معیشت کو اس کی اصل حالت پر بحال کرنے والے کو بھی لگے ہاتھوں تمغہ دیا جائے اور اسحاق ڈار جس نے آٹا،چینی ،بجلی ،پیٹرول ،ڈالر سمیت پوری معیشت کو مصنوعی طور پر سہارا دے رکھا تھا ،اسے پاکستان واپس لاکر پھانسی دیدی جائے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین