• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی _… تنویرزمان خان، لندن
دنیائے عرب میں گزشتہ ہفتے بہت بڑی اور نئی پیش رفت ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات اور معاملات باضابطہ طور پر معمول پر آگئے ہیں۔ امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ سیاسی ،سفارتی اور اقتصادی تعلقات کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سے قبل 16ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسرائیل انسانی ترقی کے اعتبار سے دنیا میں 19 نمبر پر ہے۔ اس وقت اسرائیل کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے جب کہ انسانوں کی اوسط عمر میں یہ سب سے آگے ہے۔ 1948میں جب اسرائیل وجود میں آیا تو اس وقت اس کی آبادی صرف ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ تاریخی طور پر سرزمین کئی ہزار سال سے یہودیوں کا مرکز ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہونے والی فتوحات کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں کا وجود اور عمل دخل شروع ہوا۔ رومن ایمپائر کے قابض ہونے کےبعد یہاں عیسائی آبادی قائم ہوئی۔ آبادی کی مناسبت سے دیکھا جائے تو اسرائیل دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھتا ہے جس کی ایک لاکھ ستر ہزار حاضر فوج جب کہ ساڑھے چار لاکھ کی Reserveفوج ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی کُل آبادی کا سات فیصد فوج سے منسلک ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف خفیہ ایجنسیوں سے وابستہ لوگ ہیں۔ اسرائیل کی قومی زبان تو Hebrew ہیبرو ہے جو کہ ساڑھے تین سے پانچ ہزار سال پرانی زبان ہے۔ لیکن اس کے تحریری نمونے ایک ہزار سال قبل مسیح سے پیچھے نہیں جاتے۔ یہ عربی سے پرانی زبان ہے بلکہ عربی ہیبروHebrewسے سولہ سو برس بعد لکھی جانے لگی۔ اسرئیل کے خلیجی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اس لحاظ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور تعلقات استوار کرنے کو بڑاInitiativeکہا جارہا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس عمل کو متحدہ عرب امارات کی غداری کہا ہے اور امارات سے اپنے سفارت کار بھی واپس بلالئے ہیں۔ دراصل امریکہ کا اس ڈیل میں بنیادی کردار ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں اس ڈیل پردستخطوں کی باقاعدہ تقریب وائٹ ہاؤس سے ادا ہوگی لیکن اس موقع پر اسرائیل نے ویسٹ بنک پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کا ارادے کا اعادہ کیا ہے۔ امریکہ ان اقدامات کے ذریعے نیتن یاہو کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کوشش کررہا ہے۔ نیتن یاہو اس وقت کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہا ہے لیکن ٹرمپ کا خیال ہےکہ نیتن یاہو کی پوزیشن مضبوط ہونے کا اسکے اپنے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں اس کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اس وقت بہت سے مغربی کے تجزیہ نگار اس بات کی امید ظاہر کررہے ہیں کہ اب امارات کے بعد کچھ اور ممالک بھی یہی راستہ اختیار کریں گے۔ اس ڈیل سے مڈل ایسٹ کے امن کو کیا فائدہ ہوگا۔ اس کا تو فی الحال خود امارات والوں کو بھی نہیں پتہ۔ البتہ سائنس، سیکورٹی اور اقتصادی میدان میں ایک دوسرے کو تعاون کی دہانیاں کروارہےہیں۔ یہ جو بھی کریں لیکن یہ ڈیل خطے کے جامع امن منصوبوں سے بہت دور ہے ۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان کے قابل عمل آزاد ریاست کے قیام کی امیدیں مزید ماند پڑگئی ہیں بلکہ فلسطینی خود کو اس ایشو کے شور میں تنہائی کا شکار محسوس کررہے ہیں۔ ان کی آواز مزید دب رہی ہے۔ امرکہ اب متحدہ عرب امارات کو آگے رکھ کر اور پیچھے سے سعودی عرب کو استعمال کرکے دیگر مسلم ممالک کےساتھ اسی طرز کے معاہدے کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس ضمن میں اسی وقت پاکستان پر امریکہ کی خصوصی نگاہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کے ساتھ اقتصادی اور سیکورٹی ایشوپر پہلے ہی گہرے تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بہت سی مذہبی قیادت بھی سعودیہ کے کسی کہنے کو ٹال نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت انتے بڑے فیصلے پر بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ اندرونی سیاست میں اگر کوئی سیاست پر تنقید کرے تو اسے فورا یہودی یا اسرائیل کا ایجنٹ قرار دینے میں کوئی ہکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ آج متحدہ عرب امارات کے مسئلے پر خاموش ہیں۔ اپنی کفالت کو داؤ پر لگانا ہمت کا کام ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی اپنی مالی حفاظت کے پیش نظر کسی قسم کی ٹکر لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس طرح ٹرمپ کی تیز دھار ڈپلومیسی نے پوسی مسلم ورلڈ کی Outlookکو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چین بھی مڈل ایسٹ میں اس قسم کی ڈویلپمنٹ کے خلاف نہیں ہے۔ اس لئے کہ جس قسم کی اقتصاعی ڈپلومیسی پر چین چل رہا ہے۔ اس میں ایسے اقدامات اس کی اقتصادی ڈپلومیسی اور متصادم کے خلاف نہیں ہے۔ ایران نے اسے شرمناک قرار دیا ہے جب کہ سعودی عرب، مصر،اردن،کویت وغیرہ اس معاہدے کو امن کا پیامبر قرار دیتے ہیں ۔ یورپی ممالک تو اس ڈیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں اسرائیل کے ساتھ خلیجی ریاستیں اس قسم کے اقتصادی ، ٹیکنالوجی اور سیکورٹی ایشوز پر اسی طرح سے بندھ جائیں گے کہ اسرائیل کا کسی بھی جارحیت اور مزید علاقوں پر قبضہ کرکے انہیں اسرائیل کا حصہ بنانے پر بول نہیں سکیں گے۔ اور یہ مفادات بھری ڈپلومیسی فلسطینیوں کے سینے پر چھڑا گھوپنے کے مترادف ہوگی ۔ پھر اسرائیل فلسطینوں کو جو بھی ڈیل آفر کرے گا۔ سب مل کر فلسطینوں کو ویسا ہی قبول کرنے پر مجبور کردیں گے۔ یہی ٹرمپ کا نیو ورلڈ آرڈر ہے۔ 
تازہ ترین