• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

میو اسکول آف آرٹس (موجودہ این سی اے) میں بھی ایک مسلمان پرنسپل شیر محمد کے دو مجسّمے رکھے ہوئے ہیں۔ غالباً وہ میو اسکول آف آرٹس کے پہلے مسلمان پرنسپل تھے۔ اسی طرح جارج پنجم کا مجسمہ جو کبھی لاہور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے باہر نصب تھا، اب شاہی قلعے میں ہے۔ دو برس قبل لاہور کے شاہی قلعہ کے باہر سکھ گیلری کے باہر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پر بیٹھے ہوئے ایک مجسمہ نصب کیا گیا۔ لاہور اپنی تہذیب، تمدن، کلچر اور روایات کے حوالے سے کبھی دنیا کے ہر قدیم شہر سے بہتر بلکہ بہترین تھا۔

دوستو! اس ہفتے ہم لاہور کے اس علاقے میں چلے گئے جہاںکبھی ہم نے گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے میں کھیتوں میں بہت موٹر سائیکل چلائی تھی۔ یہ علاقہ برکی بارڈر کا ہے۔ جس زمانے میں ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے تو فالتو اوقات میں لاہور کے نواحی علاقوں یا پھر اندرون شہر بہت گھوما کرتے تھے۔ اندرون شہر کی شاید ہی کوئی گلی ہو جہاں ہم نے سائیکل اور موٹر سائیکل نہ چلائی ہو اور پیدل تو اتنا سفر کیا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ برکی اور بیدیاں کے علاقے ہمیں بہت پسند ہیں۔ ان دونوں علاقوں میں آج بھی بہت ہریالی ہے۔ کبھی ڈی ایچ اے کے تمام فیزز میں کھیت اور گائوں تھے اب یہاں صرف گھر اور بڑے بڑے بنگلے بن چکے ہیں۔ یہاں کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ خودبخود ہر برسات میں پودے اور جڑی بوٹیاں اُگ آتی ہیں اور دنوں میں جنگل بن جاتا ہے۔ اس علاقے میں کبھی گندم، چاول، گنا، خربوزے، تربوز اور دیگر پھل بڑی کثرت سے پیدا ہوتے تھے بلکہ مانانوالہ کے خربوزے تو بہت مشہور تھے۔ خیر ہم اس اتوار کو برکی بارڈر کی طرف گئے۔ پورے برکی روڈ پر جگہ جگہ لکھا تھا 2، 4، 6 اور 8کنال کے فارم ہائوسز کے لئے زمین برائے فروخت ہے۔ خیر ایک جگہ پر رک کر معلوم کیا تو بتایا گیا کہ یہ ڈھائی سو ایکڑ جگہ ایک خان صاحب کی ہے جس کو وہ فارم ہائوسز بنانے کے لئے فروخت کر رہے ہیں۔ کئی بڑے نام سامنے آئے۔ اس کے بعد ہم برکی بارڈر کے پاس پہنچ گئے پتہ چلا کہ تمام زمینیں فروخت ہو چکی ہیں اور قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ لوگ دھڑا دھڑ فارم ہائوسز بنا رہےہیں۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے جب ان تمام زرعی رقبوں پر کوٹھیاں، فارم ہائوسز اور ہائوسنگ اسکیمیں بن جائیں گی تو پھر لوگ کھائیں گے کہاں سے۔ اس وقت لاہور سے لے کر ڈی جی خان اور پشاور تک ہر شہر اور دیہات کے زرعی رقبے پر ہائوسنگ اسکیموں نے قبضہ کر لیا ہے۔ کون یقین کرے گا کہ کبھی مال روڈ کے اردگرد کھیت ہوتے تھے۔ اس شہر لاہور کا حسن لاہور کے دروازے اور لاہور کے نواحی دیہات تھے آج سب کچھ اجڑ چکا ہے۔ برکی کی سائیڈ اور ڈی ایچ اے فیز 6اور 7میں آبی پرندے آج بھی کبھی کبھار نظر آتے ہیں۔ پھر ایک وقت آئے گا یہاں پر کوئی آبی پرندہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ ہائوسنگ اسکیموں والوں نے لاہور کا دیہاتی حسن تباہ و برباد کر دیا ہے۔

پچھلے ہفتے ہی ہم لاہور میں ڈی جی مسعود الحق ایکسائز کے دفتر گئے تو ان کی دفتر کے سامنے ایک قدیم لال اینٹ کی بڑی خوبصورت عمارت نظر آئی۔ ہم سے رہا نہ گیا، جھٹ گاڑی سے اترے اور چل پڑے اس عمارت کی طرف۔ پتہ چلا کہ یہاں کسی زمانے میں OPIUMفیکٹری ہوتی تھی۔ اب صرف فیکٹری کا گارڈ روم رہ گیا ہے جہاں محکمہ ایکسائز والوں نے اپنا آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ قائم کر لیا ہے۔ انگریز کے دور میں OPIUM فیکٹری ایک لاہور اور دوسری چندی گڑھ میں تھی۔ کہتے ہیں کہ انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (عرف عام میں پاگل خانہ) سکھوں کی کوئی عمارت تھی۔ دفتر لارڈ صاحب (سیکرٹریٹ) میں ایک تاریخی درخت تھا جس کے نیچے رنجیت سنگھ آ کر بیٹھا کرتا تھا۔ ہم نے وہ درخت ایک زمانے میں دیکھا تھا پتہ نہیں اب ہے یا کاٹ دیا گیاہے۔ کسی زمانے میں 4نمبر بس کا آخری سٹاپ پاگل خانہ ہوتا تھا اور دوست جب کسی سے مذاق کرتے تو کہتے تھے کہ اس کو 4نمبر بس پر بٹھا دو۔ یہ بڑا کھلا علاقہ تھا۔ جب ہم نے اس کو دیکھا تھا تو یہ ایک جنگل کا سماں پیش کرتا تھا۔ روٹ نمبر 4کی بس کا یہ آخری بس اسپاٹ تھا۔بس یا ڈبل ڈیکر کچھ دیر یہاں رکتی تھی اور کچھ دیر ٹھہرتی اور واپس چلی جاتی تھی۔ شادمان کا بہت بڑا علاقہ پاگل خانے اور جیل کا ہے۔ OPIUM فیکٹری کے بارے میں آئندہ بات کریں گے۔ یہ فیکٹری 1935ء کے لگ بھگ قائم ہوئی تھی اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مینٹل اسپتال کے AGGRESSIVEمریضوں کو افیم اس سے لے کر دی جاتی تھی اور کچھ ادویات بھی بنائی جاتی تھیں۔ یہ فیکٹری کیوں بنائی گئی اور پاگل خانے سے اس کا کیا تعلق تھا آئندہ بتائیں گے۔ اس کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ پاگل خانہ ایک سو چھپن ایکڑ پر تھا اور آج یہ صرف چھپن ایکڑ پر رہ گیا ہے۔ چندری گڑھ میں بھی ایک OPIUMفیکٹری تھی۔ موجودہ حکومت نے لاہور میں OPIUM فیکٹری قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پاگل خانہ (مینٹل اسپتال) کبھی راجہ رنجیت سنگھ کے اصطبل کی جگہ تھی اور ذہنی مریضوں کی یہ علاج گاہ چوبرجی تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ سارا جنگل اور فصلوں کا علاقہ تھا بلکہ سروسز اسپتال، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، سمز اور شادمان کا علاقہ یہ سب کبھی لاہور مینٹل اسپتال کی جگہ تھا جس پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا اور اب یہ مینٹل اسپتال روز بروز سکڑ رہا ہے۔ پی آئی سی کی جگہ خواتین ذہنی مریضوں کے وارڈ اور دھوبی گھاٹ تھا۔ مینٹل اسپتال کی ایک سابق ایم ایس پروفیسر نصرت حبیب رانا کے مطابق 1981ء تک یہاں پر بجلی نہیں تھی ، لالٹین جلاکر کام کرنا پڑتاتھا۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین