• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ سبحانہ  تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن انسان بھی عجیب شے ہے۔ جیتا ہے تو اس طرح کہ جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مرتاہے تو اس طرح جیسے کبھی جیا (زندہ) بھی نہیں تھا۔اوقات فقط اتنی سی ہے کہ جس زندگی پر انسان اکڑتا اورگھمنڈ کرتا ہے وہ فقط کچی مٹی کا دیا ہے جوہوا کے ایک جھونکے سے بجھ جاتا ہے اورپھر مٹی، مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے۔ دولت، اقتدار، اختیار، عہدہ اور شہرت گھر کی چاردیواری میں داخل ہوں تو انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ دوسروں کو کم تر اور ہیچ سمجھنے لگتا ہے، اس کی ہر ادا اورہر حرکت سے غرور یوں ٹپکنے لگتا ہے جیسے پہاڑی جھرنوں سے پانی کی بوندیں ٹپکتی ہیں اور انسان اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے جیسے قیامت تک اسی کّروفر کے ساتھ دندناتا رہے گا۔ اے کاش ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
اگر ہمیں یہ یاد رہے کہ زمین بڑے بڑے فرعون، بڑے بڑے قارون اوربڑے بڑے پھنے خان کھا گئی ہے آج ان کا نام بھی مٹ چکا ہے اوریاد بھی تو شاید انسان نہ کسی پربہتان لگائے ، نہ دولت و اقتدار و شہرت کے نشے میں بہک کر غرور کرے، نہ جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکہ دے اور خلق خدا کو ہیچ سمجھے۔ اسی لئے توکہا جاتا ہے کہ موت کو یاد رکھو لیکن کبھی موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ موت کی یاد انسان کے بہت سے نشے ہرن کردیتی ہے اور اس کے غروروتکبر کو کھا جاتی ہے۔ کبھی موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ زندگی اپنے رب کا انعام، نعمت اور عطیہ ہے۔ نعمت پررب کا شکر ادا کیا جاتا ہے نہ کہ اس کے خاتمے کی آرزو کی جاتی ہے۔ نعمت کے خاتمے کی آرزو ناشکری ہے اور ناشکری انسان کا مرتبہ گھٹا دیتی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر نسان اپنی اوقات پہچان لے اوراپنی اوقات میں رہے تو شاید وہ جھوٹ، بہتان اور غرور کی آفات سے محفوظ رہے ورنہ تو یہ آفات انسان کو چھوٹا سا ”خدا“ بنا دیتی ہیں۔ انسان کی ”خدائی“ شرک ہے اورشرک وہ گناہ ہے جوکبھی معاف نہیں ہوتا۔ اس پس منظر میں کبھی کبھی سوچتا ہوں تو ساری سیاست اور سیاست بازی بہتان اور جھوٹ کا کھیل لگتی ہے۔ اقتدار اور حاکمیت فریب اور دولت بہت بڑاامتحان لگتی ہے۔ اگر سیاست میں رہ کر کسی نے جھوٹ نہیں بولا، اپنے مخالف پر بہتان نہیں لگایا، انتقام نہیں لیا اور اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا توگویاوہ سیاست کے امتحان میں پاس ہو گیا۔ اگر اقتدار میں رہ کر حکمرانوں نے خلوص سے ملک و قوم کی خدمت کی، خزانے کی ایک ایک پائی کو امانت سمجھ کر خرچ کیا اور اپنے آپ کو عوام کا حاکم نہیں بلکہ سچاخادم سمجھا تو آپ اقتدار کے امتحان میں پاس ہو گئے۔ لیکن اگر حاکم اقتدار کے نشے میں مست ہو جائیں تو یہ اقتدار فریب ِ نظر ہے اور یہ نشہ اورمستی جھوٹی اورجعلی ہے۔ سچی مستی وہ ہوتی ہے جو ہمیشہ قائم رہے اور ہمیشہ قائم وہ صرف جذب و مستی رہتی ہے جو روح کی گہرائیوں سے اٹھے اور انسان کے قلب و ذہن کو سرشار کردے۔ ایسی مستی صرف یاد ِالٰہی اور سچی انسانی خدمت سے جنم لیتی ہے۔
کوئی ایک دہائی سے زیادہ کی بات ہے رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور میں روزہ افطار کرنے کے بعد نماز ِ مغرب کے لئے مسجد گیا۔ نماز کے بعد نمازی گھروں کوچلے گئے تو میں نے یک شخص کو دیکھا جوایک چھوٹا سا تھیلا پکڑے فرش پر بیٹھا ذکر میں مصروف تھا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے روزہ افطار کرلیاہے۔ جواب ملا جی شکر الحمد للہ … مجھے وہ شخص بالکل غیرمانوس لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسافر ہے چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تنہا بیٹھے ہیں کیا کسی کا انتظار ہے؟ مسکراکر جواب دیا ”نہیں“ میں نے ہمت کی اور عرض کیا کہ اگر آپ پسند کریں تومیرے ساتھ میرے غریب خانے پر چلیں اور کھانا میرے ساتھ کھائیں۔ انہوں نے میری دعوت قبول کی۔ میرے ساتھ کھانا کھایا۔ جب میں انہیں باہر بڑی سڑک پر خدا حافظ کہنے لگا تو فرمایا آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔ میزبان کا نام معلوم ہونا چاہئے۔ میں نے اپنا نام بتا دیا۔ انہوں نے مجھ سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور یہ شعرپڑھ کر رخصت ہو گئے۔
یہ نکہتِ سرکار مدینہ کا صلہ ہے
ہر شخص مجھے خندہ پیشانی سے ملا ہے
کیا آپ یقین کریں گے کہ ان کے پڑھتے ہی یہ شعر میرے رگ و پے میں اترگیا اور اس نے ایسی جذب و مستی پیدا کی جس کی رمق آج بھی باقی ہے۔ گویا کبھی کبھی چھوٹی بات بڑا کام کر جاتی ہے ۔ میں یہ کہوں گا کہ بعض کیفیات سچی ہوتی ہیں اورسچی کیفیات ابدی ہوتی ہیں۔ جھوٹی کیفیت یا جھوٹی مستی جو اقتدار، دولت، عہدے اور شہرت وغیرہ کے نشے کا شاخسانہ ہوتی ہے لمحوں میں ختم ہوکراپنے پیچھے کرب، خلش اور پچھتاوا چھوڑ جاتی ہے۔ بہت سے ہم وطنوں کو جو دولت کے انبار پر بیٹھے ہوئے ہیں، غرور و پندار میں مبتلا ہیں، اقتدار کی بلند پہاڑی پر جلوہ افروز ہیں، اختیارات اورشہرت کی لہروں پر سوار ہیں یا دنیا کے فریب ِنظر میں مبتلا ہیں ان سب کے چمکدار چہروں پر خلش کی سلوٹیں دیکھی جاسکتی ہیں اوروہ خلش زندہ، نیم مردہ یا تقریباً مردہ ضمیر کا کارنامہ ہوتا ہے۔ مردہ ضمیر بھی کبھی کبھی خلش پیدا کرتا ہے کیونکہ ضمیر بہرحال ضمیر ہے چاہے اسے خوف ِ خدا سے زندہ رکھا جائے یا ہوس دنیا سے مردہ کردیا جائے۔ بھلا خلش کب پیدا ہوتی ہے؟ خلش اس وقت بے چین کرتی ہے جب ضمیر ملامت کرتا ہے۔ ضمیر کب ملامت کرتا ہے جب آپ اللہ سبحانہ  تعالیٰ کے بتائے ہوئے فریم ورک کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں جب آپ اقتدار، دولت، شہرت اور قابلیت کو اللہ سبحانہ  تعالیٰ کی نعمت کی بجائے اپنی محنت اورزور ِ بازو کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہاں نعمت اور محنت میں فرق کیا ہے؟ جب آپ اسے نعمت سمجھیں گے تو ان تمام نعمتوں کو شکر کے جذبے کے تحت اپنے رب کی خوشنودی کے لئے استعمال کریں گے اور جب رب کی خوشنودی مقصود ہوگی تو پھر آپ میں غرور رہے گا، تکبر نہ ہوس بلکہ آپ کواطمینانِ قلب کا تحفہ ملے گا لیکن جب اقتدار، دولت، شہرت، قابلیت اور منصب کو اپنی محنت اور زور ِ بازو کا نتیجہ سمجھا جائے تو پھروہ تکبرکو جنم دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ ان کی نمازیں اورٹخنوں سے اوپرشلواریں بھی نہ ان کے تکبر کو کھاتی ہیں اور نہ ہوس کو اور نہ ہی انہیں جھوٹ بہتان سے روکتی ہیں۔ان کی جبینوں اور ماتھے پرابھرتی شکنوں کو تم بے شک اندیشہ ٴ اقتدار، اندیشہ ٴ دولت یا تفکرقوم سمجھ لو مجھے تویہ ضمیر کی خلش کی سلوٹیں لگتی ہیں۔
شیخ سعدی کی دانائی ضرب المثل بن چکی ہے۔ ذراغورکیجئے شیخ سعدی کیا فرماتے ہیں”انسان بھی کیا چیزہے دولت کمانے کیلئے اپنی صحت کھو دیتا ہے اور پھر صحت کو واپس پانے کے لئے اپنی دولت کو کھو دیتاہے۔ مستقبل کو سوچ کر اپنا حال ضائع کرتا ہے پھر مستقبل میں اپنے ماضی کویادکرکے روتاہے۔ جیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مرایسے جاتا ہے جیسے کبھی جیا ہی نہیں۔“
تازہ ترین