• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چاچا پھتو میرے لئے ہمیشہ چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپا وہ معمہ رہا ہے جسے میں کبھی حل نہیں کر پایا۔ مثلاً یہاں ہر شخص الیکشن کی دھما چوکڑی میں مصروف ہے مگر چاچا پھتو کو پاکستان کے عام انتخابات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں کیونکہ بقول اس کے جنگل میں بھی عام انتخابات زور و شور سے ہو رہے ہیں اور شتر مرغ جسے چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا ہے اس نے کبوتر کے ذریعے خصوصی مراسلہ ارسال کر کے چاچا پھتو کو بطور مبصر مدعو کیا ہے۔ میں نے نہایت منت سماجت کر کے چاچا پھتو کو ایک دن کے لئے واپس بلایا تاکہ اپنے ہاں رائج انتخابی و سیاسی کلچر کا جنگل کے انتخابی طریق کار سے موازنہ کر سکوں۔ ہمارے ہاں تو سانپ سیڑھی کا کھیل چل رہا ہے اچانک کسی امیدوار کو نااہلی کا ناگ ڈس لیتا ہے اور وہ ادھ موا ہو جاتا ہے مگر اچانک بریکنگ نیوز ملتی ہے فلاں صاحب صادق و امین قرار پائے۔ چاچا پھتو کہنے لگا‘ تم دو چار ہفتے جانوروں کے ساتھ رہ لیتے تو یوں بگلے کی طرح ریت میں سر نہ چھپاتے مسئلہ سانپ سیڑھی کے کھیل کا نہیں سانپ گذرنے کے بعد لکیرپیٹنے کا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا وقت آتا ہے تو تمہیں سانپ سونگھ جاتا ہے‘ بعد میں حکمرانوں کو کوسنے دیتے رہتے ہو۔ آج کل تو جنگل میں بھی سانپوں نے ڈسنا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ انہوں نے جنگل کے باسیوں سے ووٹ لینے ہیں مگر شہروں میں دندناتے پھرتے ناگ الیکشن کے قریب بھی کاٹ کھانے سے باز نہیں آتے۔ سانپ اور نیولے نے اس بار بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے مگر شتر مرغ نے انہیں نااہل قرار دے دیا ہے جس دن سانپ اور نیولے کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تم اس دن جنگل کی عدالت میں وکیلوں کی بحث سن لیتے تو تمہارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے۔ بکری نے سانپ کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض داخل کیا تھا جب بندر نے اس کی وکالت کرتے ہوئے دلائل دینا شروع کئے تو مجھ جیسا”بے عزتی“ پروف انسان بھی شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ بندر نے کہا‘ سانپ کوہتھیلی پر دودھ بھی پلا کر دیکھ لیں ‘وہ ڈستے وقت حیاء نہیں کرتا۔ سانپ اس قدر کمینہ اور دھوکے باز ہے کہ انسانوں نے آستین کے سانپ جیسے محاورے بنا رکھے ہیں‘ اس کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے‘ سانپ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ہر سال سانپ کے ڈسنے سے ڈیڑھ لاکھ انسان مرتے ہیں۔ جو انسان جیسی چالاک و مکار مخلوق کو کاٹ کھاتا ہے اگر اسے ہم نے اپنا نمائندہ منتخب کر لیا تو پاکستان کی طرح یہاں بھی بس سانپوں کو آزادی ہو گی ۔بندر کے دلائل ختم ہوئے تو سانپوں اور نیولوں کی وکالت کرنے کے لئے لومڑی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا‘ جج صاحب! میرے فاضل دوست نے جن انسانوں کا حوالہ دیا ان کی حماقت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ رینگنے والے بے ضرر سانپوں سے ڈرتے ہیں مگر دوٹانگوں والے ان اژدھوں کوووٹ دیتے ہیں جو منتخب ہوتے ہی سب کچھ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ سانپ کے کاٹنے سے ڈیڑھ لاکھ افراد مرتے ہیں تومگرہر سال انسانوں کے مارنے سے 50 لاکھ انسان لقمہٴ اجل بنتے ہیں۔ سانپ تو ڈستا ہے مگر انسان ایک دوسرے کی ہڈیاں تک چبا جاتے ہیں۔ یہ ایسی زہر ناک مخلوق ہے جس نے سانپوں کو زہر مستعار دیا۔ سانپ اور بچھو شروع سے زہریلے نہیں ہوا کرتے تھے ان کے دماغوں میں کاٹ کھانے کا خناس تو تب آیا جب انہوں نے انسانوں کی قبروں میں گھس کر مُردوں کو نوچنا شروع کیا۔
میں چاچا پھتو کی باتیں سن کر ہکا بکا رہ گیا‘ مجھے چاچا پھتو کی علمی استعداد کا بخوبی اندازہ ہے اس لئے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ یہ باتیں ازخود نہیں کر سکتا یقیناً جانوروں کی عدالت میں یہ مکالمہ ہوا ہوگا۔ تجسس بڑھا تو چاچا پھتو سے پوچھا‘ وہاں اور کس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں؟
چاچا پھتو کہتا ہے یوں تو سانپ‘ نیولے‘ بچھو اور گرگٹ سمیت بہت سے باسیوں کو نااہل قرار دیا گیا ہے مگر سب سے زیادہ ہا ہا کار گِدھ کے انتخابی عمل سے آوٴٹ ہونے پر ہور رہی ہے۔ گرگٹ نے بہت مرتبہ جنگل کے جانوروں کو دھوکہ دیا‘ ہر بار وہ نیا روپ بدل کر میدان میں آجاتی تھی مگر اس بار الیکشن کمیشن نے اسے امیدواروں کی فہرست سے ہی نکال دیا ہے‘ گدھے کو جعلی ڈگری پر سزا ہو گئی ہے اب سب جانور اس کا مخول اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں تم تو نرے انسان ہو‘ پاکستان چلے جاوٴ وہاں تمہیں ٹکٹ مل جائے گا کیوں کہ انسانوں کے ہاں گدھے گھوڑے کا فرق کسی کو معلوم نہیں۔ اونٹ تو نگران حکومت میں شامل ہو گیا ہے اس لئے اس کی برادری الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی۔ شاہین کا اپنا ہی جہاں ہے وہ اس انتخابی جھمیلے کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ اس مرتبہ اصل مقابلہ ریچھ‘ شیر ہاتھی اور بکری میں ہے۔ شیر اور ہاتھی دونوں کئی بار حکومت کر چکے ہیں اس لئے اب جنگل کے جانور کسی اور کو موقع دینا چاہتے ہیں ویسے بھی شیر کے بارے میں بلی کہتی پھرتی ہے کہ یہ میرا بھانجا نہیں بلکہ گیدڑ ہے جس نے شیر کی کھال پہن کر سب کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔ جنگل کی بھیڑ بکریوں نے اس بار ایکا کر لیا ہے کہ کسی لچے لفنگے کوووٹ نہیں دینا۔ میں نے ایک بکری کو جلسے سے خطاب کرتے سنا تھا کہ ہم بھیڑ بکریاں ہیں‘ کوئی پاکستانی عوام تو نہیں کہ کوئی چرواہا بن کر آئے اور سب کو ہانک کر لے جائے۔ اس بار ہم خود حکومت بنائیں گے۔ گائیں‘ بھینس‘ ہرن‘ زرافے‘ خرگوش سمیت تمام امن پسند اور شریف جانور جوپہلے بدمعاش جانوروں کے خوف سے دبکے رہتے تھے اب دبنگ انداز میں بکریوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔
مگر چاچا جی‘ وہ جو آپ گِدھ کے نااہل ہونے کی تفصیل بتا رہے تھے وہ کہیں درمیان میں رہ گئی؟
ہاں میں بتا رہا تھا گِدھ صرف نااہل ہی قرار نہیں پائے بلکہ انہیں جنگل سے بوریا بستر سمیٹ کر جلا وطن کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ ان کے مخالفین کا استدلال تھا کہ گِدھ نہایت کریہہ صورت اور منحوس پرندہ ہے چونکہ یہ حرام کھاتا ہے اور موت سے زندگی کشید کرتا ہے اس لئے جنگل کا امن برباد ہوا گر اسے نکال دیں گے تو جنگل پھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ گِدھوں کے وکیل صفائی نے بہت کوشش کی عدالت کو مطمئن کرنے کی مثلاً اس نے بتایا کہ گِدھ کو حرام خوری کی لت نہیں بلکہ یہ کام وہ بہت اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لئے کرتا ہے مثلاً وہ جانور جو صحرا میں مر جاتے ہیں یا شہروں میں ہلاک ہو جاتے ہیں اگر ان کی لاشیں ویسے ہی گلتی سڑتی رہیں تو وبائی امراض کے باعث کوئی چرند‘ پرند یا انسان زندہ نہ رہے۔
معزز جج صاحبان! انسانوں میں ایک طبقہ جو پارسی کہلاتا ہے یہ اپنے مردوں کو دفنانے کے بجائے کسی کھلی جگہ پر پرندوں کی غذا بننے کے لئے چھوڑ دیا کرتے تھے مگر اب انہیں شدید پریشانی کا سامنا ہے کیوں کہ خود غرض انسان نے اپنے جانوروں کو ڈیکلوفینک دوائی دینا شروع کر دی جب یہ جانور مرتے ہیں اور گِدھ ان کا گوشت کھاتے ہیں تو ان کے گردے فیل ہو جاتے ہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ گِدھوں کی نسل ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ عالی جاہ! پہلے ہی بہت سے گِدھوں نے انسانوں کا روپ دھار کر اپنے زندہ بھائیوں کا گوشت نوچنا شروع کر دیا ہے اگر گِدھوں کو جنگل بدر کر دیا گیا تو یہ سب انسانوں کا بھیس بدل کر شہروں میں جا گھسیں گے اور پھر مردہ تو کیا زندہ مخلوقات کو بھی ہڑپ کر جائیں گے۔
چاچا پھتو کو جلدی ہے کیونکہ اس نے واپس جنگل جا کر انتخابات کی مانیٹرنگ کرنی ہے دفعتاً مجھے خیال آیا کیوں نہ جاتے جاتے ایک آخری بات پوچھ لوں۔
”چاچا جی! کیا کبھی جنگل میں بھی کسی طاقتور جانور کو آئین توڑنے پر سزا دی گئی ہے؟“ چاچا پھتو نے میری جہالت پر ہنستے ہوئے کہا‘ تمہارا کیا خیال ہے ڈائنوسار کیوں صفحہٴ ہستی سے مٹ گئے ؟ انہوں نے جنگل کا قانون توڑ کر انسانوں کی طرح مارشل لاء لگایا تھا مگر وہاں کے سیاستدانوں اور عدالتوں سے انہیں یوں نشان عبرت بنایا کہ پھر کسی جانور کے اندر کے ”انسان“ نے بغاوت نہیں کی۔
تازہ ترین